|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2016

کوئٹہ : سانحہ سول ہسپتال کی انکوائری کیلئے تشکیل دئیے گئے جوڈیشل کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سانحہ سول ہسپتال کے ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق صوبائی ترجمان کے بیان نے مزید کنفیوژن پیداکردی ہے ،وزیراعلیٰ کچھ ترجمان کچھ جبکہ ڈی آئی جی پولیس کچھ اور کہہ رہے ہیں محسوس ہورہاہے جیسے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہو ۔سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ ،سینئر وکلاء محمدعامررانا ایڈووکیٹ،ہادی شکیل احمد ایڈووکیٹ،نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ،صابرہ اسلام ایڈووکیٹ،محمداسحاق ناصر ایڈووکیٹ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔گزشتہ روز سماعت کے دوران قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ عجیب صورتحال ہے ،سانحہ 8اگست کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری سے متعلق وزیراعلیٰ بلوچستان کچھ کہتے ہیں ترجمان کچھ اور کہتے ہیں جبکہ ڈی آئی جی پولیس کچھ اور، محسوس کررہے ہیں کہ جیسے کمیشن کی کارروائی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہو کمیشن پر سیاست نہیں ہونے دینگے ،20منٹ کا وقت دیتاہوں اس سلسلے میں کمیشن کو حقائق سے آگاہ کیاجائے بصورت دیگر وزیراعلیٰ کو بلائینگے ان کے پاس معلومات ہے تو وہ عدالت میں آکر بیان ریکارڈ کرائیں اسے استثنیٰ حاصل نہیں ،ڈی آئی جی پولیس سے پوچھے وزیراعلیٰ کہاں ہے انہیں وی آئی پی موومنٹ کے متعلق معلوم ہوتاہے ،ترجمان صوبائی حکومت کے جاری کردہ بیان سے مزید کنفیوژن پیدا ہواہے ان کا بیان پولیس کے بیان سے متصادم ہے میں نے کل بھی ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق وضاحت طلب کی تھی مگر کسی نے اس سلسلے میں وضاحت پیش نہیں کی بعدازاں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ نے کمیشن کو یقین دہانی کرائی کہ وہ آدھے گھنٹے میں اس سلسلے میں تحریری طورپر رپورٹ عدالت کو دیدیں گے ،کمیشن کے جج نے ریمارکس دئیے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو رپورٹ میں کیا لکھوں گا،فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ اگر حساس نہ ہوئی تو اس سے بھی رپورٹ کاحصہ بنادیاجائیگا جبکہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایاکہ وہ پولیس اور عدالت کے ذمہ داری ہے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔کمیشن کے سامنے آرایم او سول ہسپتال ڈاکٹرجاوید اختر نے بھی اپنا بیان قلم بند کرایا اور کہاکہ وہ ایکسرے روم میں داخل ہورہے تھے کہ دھماکہ ہوا اس کے بعد انہوں نے ہر طرف خون میں لت پت لوگ دیکھے ۔انہوں نے بتایاکہ 8اگست کو ہونے والے واقعات کے بعد ایمرجنسی کی ٹیم موجود تھی تاہم وہ ہسپتال میں ایمرجنسی کی نفاذ کا علم نہیں رکھتے انہوں نے بتایاکہ ہسپتال کے کسی بھی شعبے سے ڈاکٹر،پیرامیڈیکس ،نرسز میں سے کوئی بھی ایمرجنسی میں ان کی مدد کو نہیں آیا انہوں نے بتایاکہ بلال انور کاسی کے ایکسرے میں ان کی جسم میں گولی نظرآرہی ہے انہوں نے ایکسرے بھی پیش کیا انہوں نے بتایاکہ ایم ایل او والے تمام مریضوں کی رجسٹرمیں نام درج کئے جاتے ہیں تاہم جس وقت ہسپتال میں دھماکہ ہوا اس کے بعد روٹین کے مریضوں کااندراج رجسٹرمیں موجود ہے مگر دوسرے افراد کا اندراج نہیں کیاجاسکاہے ،سماعت کے دوران ڈی آئی جی پولیس نے بتایاکہ سول ہسپتال میں بم دھماکے کے بعد پولیس اہلکاروں نے تحقیقات کیلئے وکلاء اور دیگر زخمیوں کے جیبوں سے موبائل فونز نکالے ہیں جن کی تفصیلات ان کے پاس موجود ہیں پولیس اہلکاروں پر چوری کاالزام درست نہیں ہے انہوں نے وکلاء اور دیگر زخمیوں کے جیبوں سے نکالی گئی اشیاء اوردیگر کی تفصیل بھی کمیشن کے سامنے پیش کی انہوں نے کہاکہ پولیس کا حکومتی بیان سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ سانحہ سے متعلق تحقیقات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔کمیشن کے سامنے گواہی کیلئے پیش ہونیوالے وکیل معصوم کاکڑ نے بتایاکہ دھماکے کے بعد انہوں نے آدھے گھنٹے سے زائد تک فورسز کے اہلکاروں کو نہیں دیکھا میڈیا والے کھڑے تھے جو ان کی مدد کی بجائے ویڈیو بنارہے تھے اور تصویریں لے رہے تھے ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اٹھایا اورایمبولینسز میں ڈالے میں نے موقع پر کسی ڈاکٹر ،نرس یا پیرامیڈیکس کو زخمیوں کو طبی امداد دیتے ہوئے نہیں دیکھا انہوں نے بتایاکہ کافی دیر بعد فورسز کے اہلکار وہاں آئیں جبکہ ریڈ کراس کے بھی کچھ رضا کار موقع پرپہنچے بعد ازاں وہ سی ایم ایچ گئے لیکن انہیں بتایاگیاکہ زخمیوں کیلئے خون کی ضرورت نہیں ہے ،چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر وی آئی پی آرہے ہیں اس لئے وہ جگہ خالی کریں ۔بعدازاں کمیشن کی سماعت مکمل ہوئی ۔