کوئٹہ مسائل کا شہر بنا ہوا ہے اور روز بروز اس کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت کئی دہائیوں سے اس کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں بنیادی طورپر اس بڑے شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔ حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ کوئٹہ کا افسر اعلیٰ سی ایس پی ’ ڈی ایم جی یا وفاقی سروس کا آدمی ہو ۔ دہائیوں سے ایسے نامور مشہور افسران نے کوئٹہ شہر میں حکمرانی کی ہے جب وہ سب وفاقی حکومت کے بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے تو انہوں نے کوئٹہ اور اس کے باسیوں کو نظرانداز کیا ۔ ایسے نامور’ چغادری’ طاقتور ترین افسروں کی تعداد اکا دکا نہیں درجنوں میں ہے ۔وزیراعظم کے موجودہ پرنسپل سیکرٹری کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں دوسرے الفاظ میں کوئٹہ اجنبی افسران کے ماتحت رہا اس لیے ہر افسر نے اس پوسٹ کو اپنی عزت اور وقار کے لئے استعمال کیا ۔ تعلقات بنائے اور بہتر پروموشن حاصل کی لیکن کوئٹہ کے مسائل میں اضافہ ہوتاگیا۔ کوئٹہ کے اصلی مالکان شاہوانی ،کرد ،رئیسانی ، کاسی دوسرے قبائل اور قبائلی رہنماؤں اور معتبرین کو نظر انداز کیا گیا ان کو کبھی بھی کوئٹہ کے معاملات میں اعتماد میں نہیں لیا گیا دوسرے الفاظ میں مقامی رائے عامہ کویکسر نظر انداز کیا گیا اورکوئٹہ کے معاملات کو پس پشت ڈال دیا گیا بلکہ آج بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ ہی کسی تبدیلی کے آثار ہیں ۔ کوئٹہ گندگی کی علامت بن گیا ۔کسی زمانے میں کوئٹہ کو صفائی اور صحت افزا مقام ہونے کی وجہ سے ’’چھوٹا پیرس‘‘ کا نام ملا تھا۔ آج شہر کے اندر، سول اسپتال اور صوبائی سیکرٹریٹ کے قریب گٹر ابل رہے ہیں جو شہر بھر میں بیماریاں پھیلا رہی ہیں۔ گندہ اور گٹر کا پانی ان علاقوں میں کھڑا رہتا ہے ، تعفن پھیلاتا رہتا ہے بلکہ بیماریاں پھیلاتا رہتا ہے ۔ کوئٹہ پر افغانوں کی یلغار جاری ہے ،دوردراز علاقوں سے غریب لوگ روزگار کے لئے کوئٹہ کا رخ کررہے ہیں افغان غیر قانونی تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں موجود ہے ۔ وہ بلوچستان کے محدود ترین ذرائع پر زبردست بوجھ ثابت ہوئے ہیں ۔ پانی ،بجلی، گیس اور زندگی کی تمام تر سہولیات حاصل کررہے ہیں ۔ کوئٹہ پر آبادی کے دباؤ کے دو دوسرے عناصر بھی ہیں پورے صوبے میں بد امنی، مایوسی اور سیکورٹی کی صورت حال کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے کوئٹہ کا رخ کیا ہے۔ دوسری وجہ آئے دن کے قدرتی آفات ہیں وفاقی حکومت نے آفات زدگان کی زبانی کلامی مدد کا اعلان کیا ، جتنا نقصان پہنچا،اس کا پانچ فیصد بھی لوگوں کو نہیں دیا گیا ۔خصوصاً قحط سالی کی وجہ سے بڑی آبادی کوئٹہ آگئی اور معاشی حالات کے پیش نظر کوئٹہ میں مستقل رہائش اختیار کی ۔ اب کوئٹہ میں پینے کے پانی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ۔ کوئٹہ وادی میں ایک محدود آبادی کے لئے زیر زمین پانی موجود تھا جو روز بروز کم ہوتا جارہا ہے ۔ اس کی ایک وجہ پانی کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ، زمین دار حضرات کے ٹیوب ویل، خصوصی طورپر زراعت اور باغبانی کے لئے استعمال نے پانی کے قحط کی شدت میں اضافہ کردیا ہے ۔کوئٹہ کو پانچ کروڑ گیلن پانی کی روزانہ ضرورت ہے جبکہ شہریوں کو ڈہائی کروڑ گیلن پانی فراہم کیاجارہا ہے ۔ اس کا حل یہ نکالا جارہا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی کوئٹہ کے بلند ترین پہاڑی شہر کو پہنچایا جائے ۔ یہ ممکن ضرور ہے مگر اس کی سالانہ خرچ بھی کئی اربوں روپے ہوگی جو بلوچستان کی حکومت برداشت نہیں کرے گی ۔ پانی کو سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلندی پر پمپ کرنا دنیا کا ایک عجوبہ ہوگا۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ منصوبہ سازوں کو بلوچستان کے دارالخلافہ کے لئے نئے شہر کی تعمیر کرنی ہوگی وہ بھی اسلام آباد کے طرز پر مگر شہری آبادی کو حکومتی دفاتر سے زیادہ دور رکھنا پڑے گا۔ چھوٹا شہر جس میں سرکاری اہلکار اور ان کے اہل خانہ اور شہری ضروریات پہنچانے والے چند ہزار لوگ ہوں اس خطے میں معاشی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ساحل مکران ہے جو تین ہزارکلو میٹر طویل ہے ۔اس میں ایران کا حصہ1800کلو میٹر اور پاکستان کا حصہ1200کلو میٹر ہے ۔ ساحل مکران اور دونوں ملکوں میں زبردست معاشی سرگرمیوں کے مرکز ہو گا۔ممکن ہے کہ مستقبل کے منصوبہ ساز دارالخلافہ کو ساحل مکران پر تعمیر کریں جہاں سے معاشی ترقی کا زیادہ قریب سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔