|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2016

توقع کے مطابق گوادر پورٹ کاافتتاح ہوگیا ۔ چین سے ٹرکوں میں سامان گوادر لایاگیا اور اس کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی ایشیاء اور افریقی ممالک کو روانہ کر دیا گیا۔ اس کا افتتاح وزیراعظم پاکستان نواز شریف ‘ آرمی چیف اور درجن بھر ممالک کے سفراء کی موجودگی میں ہوا اس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے مہمانوں کو خصوصی طورپر دعوت دی گئی تھی ۔ اس میں بڑی تعداد میں اخبار نویس موجود تھے ۔ اس موقع پر چین کے سفیر نے کہا کہ تجارتی راہداری ایک ہے مگر اس میں کئی راستے استعمال ہورہے ہیں اس نے یہ مثال شاید اس لیے دی کہ یہ ٹرکوں کا قافلہ مغربی روٹ سے آیا تھا اس نے مغربی روٹ کو استعمال کرکے ایک بہت بڑے حلقے کے لوگوں کو خاموش کرادیا ۔ وزیراعظم نے اس کے لئے خصوصی طورپر مولا نا فضل الرحمن کو اپنے ساتھ لائے تھے اس کے علاوہ پشتون خواہ میپ کے تمام صوبائی رہنما اور وزراء موجو دتھے ۔ ان کی موجودگی میں مغربی روٹ سے آمدہ تجارتی کاروان یا تجارتی سامان کو جہاز پر لادا گیا اور اس کو ان سب کی موجودگی میں روانہ کردیاگیا۔ بلوچستان کے عوام گوادر بندر گاہ کو مغربی یا مشرقی روٹ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ ایک وفاقی حکومت ہے کہ گوادر بندر گاہ پر کام یا اس کو مکمل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کررہی۔ جب سے گوادر پورٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے اس کو دس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا اس پر کام گزشتہ دس سالوں سے روک دیا گیا ہے ۔ وجہ ہمیں نہیں معلوم شاید وفاقی حکومت گوادر پورٹ کو صرف تین برتھوں تک محدود کرنا چاہتی ہے۔ اگر نہیں تو ستر سے زائد برتھوں کی تعمیر چلتی رہتی ۔ گزشتہ دس سال جو ہم نے ضائع کیے اس عرصے میں گوادر پورٹ کی کم سے کم پچاس برتھیں بن چکیں ہوتیں ۔ بلوچ عوام کومعلوم ہے کہ تربت ‘ خضدار ‘ وسطی اور شمالی بلوچستان کو معاشی اور صنعتی لحاظ سے ترقی دینے کے لئے کم سے کم نصف صدی درکار ہے ۔ پنجاب میں تمام بڑے منصوبوں پر ایک ساتھ عمل کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پنجاب کے حکمران خوفزدہ ہیں معلوم نہیں کون سی قیامت آنے والی ہے کہ وہ اس برق رفتاری سے وسطی پنجاب کو ترقی دے رہے ہیں ۔ بلوچستان کے بارے اس قسم کی برق رفتاری کا مظاہرہ نہیں ہورہا ہے نہ ہی بلوچ عوام کسی قسم کی برق رفتاری کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ گوادر پورٹ کے منصوبے کو مکمل کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نظرنہیں آرہا ہے ۔اگر آج گوادر پورٹ کا منصوبہ مکمل ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ بین الاقوامی معاشی قوتیں اس کو استعمال میں نہیں لاتے۔ کم سے کم ریاست پاکستان کے لئے گوادر پورٹ پانچ سے دس ارب ڈالر سالانہ آمدنی حاصل کرتی خصوصاً حکومت پاکستان بین الاقوامی تجارت پر پابندیاں نہ لگاتی یا راہداری کے مسئلے پر امتیازی سلوک روا نہ رکھا جاتا اور مقصد پاکستان کو ترقی دینا اور عوام کو خوشحال بنانا ہو تا۔ چین سے ہماری زیادہ توقعات نہیں ہیں چین سے امداد اور قرضہ لے کر پہلے گوادر بندر گاہ کی تعمیر کو مکمل کریں یہ پاکستان کے عوام کی بڑی خدمت ہوگی کیونکہ کراچی اور پورٹ قاسم پورے پاکستان اور چین کے مغربی صوبے کی ضروریات پوری کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ گوادرکی بندر گاہ چونکہ مغربی ایشیاء میں واقع ہے اور جنوبی ایشیاء کا حصہ نہیں ہے اس لیے وہ وسط ایشیاء کے تمام مالک کے لئے تجارتی راہداری کی خدمات بخوبی سر انجام دے سکتا ہے اور روس اس بندر گاہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔1990ء کی دہائی میں ایشیائی ترقیاتی بنک نے ساڑھے گیا رہ ارب ڈالر صرف اس پروجیکٹ کے لیے مختص کیے تھے جس کا مقصد گوادر کی بندر گاہ کو ریل اور سڑکوں کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ملانا تھا نہ معلوم وجوہات اور افغان خانہ جنگی میں شمولیت یعنی پاکستان کے زبردست شوق کی وجہ سے وہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اس کے ساتھ ہی یونی کول کا ترکمانستان‘ افغانستان ‘ پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی ختم ہوگیا۔ اب بھی اگر صوبائی حکومت اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے اور شہبازشریف کی طرح بین الاقوامی معاملات اور بین الاقوامی تجارتوں پر اجازت نامہ حاصل کرے تو شاید ایشیائی ترقیاتی بنک حکومت بلوچستان کی وجہ سے گوادر ریل روڈ اسکیم کو دوبارہ بحال کر سکتا ہے ۔ تعمیرات کے اخراجات ایشیائی ترقیاتی بنک ادا کرے گا اور گوادر وسط ایشیائی ممالک بشمول ایران اس ریلوے نظام کا حصہ ہوگا جس سے پاکستان وسط ایشیاء، مغربی ایشیاء اور یورپ سے ریل کے ذریعے منسلک ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کراچی کی بندر گاہ استعمال کرتا رہے گا اس لیے کاشغر‘ کراچی زیادہ منافع بخش اسکیم ہے بہ نسبت گوادر کے ۔