|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کی مدت میں ایک سال کی توسیع ناقابل قبول ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ انہیں باعزت طریقے سے جلد واپس ان کے ملک بھیجا جاتا لیکن حکمرانوں نے دسمبر17ء تک توسیع دینے کی سفارش اپنے حلیف جماعتوں کی خوشنودی کیلئے کی چند جماعتوں کو بلا کر انہیں آل پارٹیز کانفرنس کا نام دینا کسی بھی صورت درست اقدام نہیں افغان مہاجرین بلواسطہ یا بلاواسطہ بلوچستان میں مذہبی جنونیت ، انتہاء پسندی دہشتگردی کے واقعات میں انہیں ملوث کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین خاندانوں نے بلوچستان سے شناختی کارڈز ، پاسپورٹ اور انتخابی فہرستوں میں اندراج کرائے جو جماعتیں افغان مہاجرین کی توسیع کے خواہش مند ہیں وہ دراصل بلوچستانی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں یہ اقدامات بلوچستانیوں کے ساتھ انصافی ہے بلوچوں کے ساتھ ناانصافیوں کا طویل سلسلہ پہلے ہی سے تھا زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ایک بار پھر گہری ، منظم گھناؤنی سازش کے تحت افغان مہاجرین کی موجودگی میں حکمرانوں مردم شماری کرانا چاہتے ہیں اب تو ان کے چہرہ عیاں ہو چکا ہے ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں مردم شماری قبول نہیں نہ ہی آئینی و قانونی طور پر ان کی حیثیت ہوگی بیان میں کہا گیا کہ 2011ء کے خانہ شماری میں اس وقت کے سیکرٹری شماریات نے واضح کیا تھا کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں افغان مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے وہاں کی آبادی کی شرح میں 2سے 4سو فیصد اضافہ ہوا ہے جو صرف اور صرف افغان مہاجرین کی وجہ سے ہوئی ہے بلوچستان کے عوام نے بہت مہمان نوازی کی اب انہیں باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے اگر پنجاب کے حکمرانوں کو ان میں دلچسپی ہے تو انہیں پنجاب اور خیبرپختونخواء میں آباد کر کے وہیں سے شناختی کارڈز ، پاسپورٹ و دیگر دستاویزات جاری کریں بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان ہزاروں سالوں سے بلوچوں کا مسکن رہا ہے ہماری نو ہزار سالہ تاریخ ہے ہم نے بنی نوع انسانوں کو مہر گڑھ کی تاریخ ، تہذیب ، تمدن کے ذریعے رہن سہن سکھایا ہماری قدیم تاریخ اور زبانیں ہیں بلوچی ، براہوئی اور کھیترانی زبانیں بڑی زبانیں ہیں بلوچستان کو ہمیں کسی نے تحفے میں نہ دی ہمارے آباؤ اجداد نے مسلسل جہد قربانیوں سے اس کی آبیاری کی اور جغرافیہ کی حفاظت کیلئے لہو بہایا سامراجوں سے نبردآزما ہو کر جدوجہد کی گوادر بہر بلوچ ، خان گڑھ اور ڈیرہ جات اور ماہی گولاچی کی سرزمین طول و عرض جو اہمیت کا حامل ہے اسی سرزمین کی جغرافیائی اہمیت ہے بلوچستان وسائل سے مالا مال وطن ہے گیس ، سمندر سمیت بے شمار وسائل ، قدرتی معدنی دولت ریکوڈک اور سیندک کے مالک ہونے کے باوجود بلوچ کسمپرسی کی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں اور نان شبینہ کے محتاج ہیں پسماندگی ، بدحالی قدرت کی طرف سے نہیں بلکہ ہر دور کے آمر و سول حکمرانوں نے دانستہ طور پر بلوچستان کو پسماندہ رکھا اور وسائل لوٹتے رہے ہماری جدوجہد کسی کے خلاف نہیں لیکن ہم کسی کو یہ اختیار نہیں دیتے کہ وہ توسیع پسندی کے ذریعے ہمیں اقلیت میں تبدیل کرے ہماری اپنی تاریخ رہی ہے انگریزوں نے کوئٹہ میں آ کر بلوچ خاندان سے معاہدے کئے 1958تک کوئٹہ کی معاشی منڈی کی زبان براہوئی رہی ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ بی این پی ہر گز کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ ہماری سرزمین پر ہمیں اقلیت میں تبدیل کرے ۔