جب سے وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس روانہ کرنا چاہتاہے اس دن سے پشتون سیاسی قیادت نے حکومت پر دباؤڈالنا شروع کردیاہے کہ ان کو اتنی جلدی واپس نہ بھیجیں۔ افغان تارکین وطن کانفرنس میں پشتون رہنماؤں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان افغانوں کو بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو مزید پانچ سال پاکستان میں رہنے دیا جائے جبکہ آج پشتون قوم پرست پیچھے ہیں اور مولانا حضرات فضل الرحمان اور سراج الحق جو دو بڑی مذہبی پارٹیوں کے سربراہ بھی ہیں آگے آئے ہیں اور افغان غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے میں پیش پیش ہیں ۔ یہی دو پارٹیاں بھی افغان خانہ جنگی میں کلیدی کردار ادا کرتیں رہیں بلکہ کابل میں قائم قانونی حکومتوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے بر سر پیکار رہی ہیں اور گوریلا جنگ میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ سراج الحق صاحب خود ’’افغان جہاد‘‘میں لڑنے گئے تھے بلکہ اس نے افغان خانہ جنگی میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ اب افغان حکومت کی یہ خواہش ہے کہ افغان تارکین وطن واپس نہ آئیں بلکہ جلدی میں نہ آئیں۔ مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق ان کی حمایت میں نکل آئے ہیں انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے بلکہ اس میں روز بروزاضافہ کر ر ہے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسفند یار ولی خان اور محمود خان اچکزئی ‘ دو بڑے پشتون قوم پرست رہنماء خاموشی سے پیچھے بیٹھ کر تحریک کی حمایت کررہے ہیں ان کا موقف بڑا عجیب ہے ان کا کہنا ہے کہ جلد سے جلد افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی صورت میں بھارت فائدہ اٹھائے گا اور افغانستان کی حکومت بھارت کے قریب تر ہوتاجائے گا ۔ یہ رائے وزات خارجہ کے دانشوروں کی تھی جس کو پشتون رہنماؤں نے اپنا یا اور اس کو حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے آج تک استعمال کررہے ہیں ۔ یہ موقف غلط ہے بھارت اور افغانستان بلکہ امریکا کے ساتھ ناٹو ممالک قریبی اتحادی ہیں STRATEGIC PARTNERS ہیں۔ہمارے افغان تارکین وطن کو افغانستان واپس بھیجنے سے اس اتحاد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا نہ پاکستان کے اس عمل سے افغانستان کوچھو ڑ کر پاکستان کے ساتھ اتحاد بنائیں گے، یہ نا ممکنات میں سے ہے خصوصاً موجودہ سیکورٹی صورت حال میں۔ اس سلسلے میں عسکری اور سیکورٹی اداروں کا یہ خیال ہے کہ افغان تارکین وطن پاکستان کے لئے زبردست سیکورٹی رسک ہیں ۔ 99فیصدخود کش بمباراور دہشت گرد افغان باشندے ہیں جنہوں نے گذشتہ 14سالوں سے پاکستان میں عدم استحکام کی فضا پیدا کردی ہے ۔ان کا مطالبہ یہ ہے کہ افغان تارکین وطن کو جلد سے جلد واپس بھیجا جائے جس سے ملک میں اسی فیصد امن قائم ہوجائے گا۔ پاکستان مخالف ممالک انہی افغان تارکین وطن کو استعمال کررہی ہیں تاکہ پاکستان کو استحکام نصیب نہ ہو ۔اکثر پشتون سیاسی پارٹیوں نے افغانستان کے غیر قانونی تارکین وطن کو اپنا سیاسی کارکن بنایا ہے اور ان کی بڑی اکثریت ان کے جلسے جلوس میں نظر آتی ہے ۔ ان پارٹیوں کی ایک بڑی قوت افغانوں پر مشتمل ہے ان کو سیاسی طورپر استعمال کیاجاتا رہا ہے یہ پارٹیاں اور رہنماء صرف اپنے سیاسی مفادات کے تحت افغانوں کو واپس بھیجنے کے مخالف ہیں۔
ملک کے تمام باشندے ان افغانیوں کے کردار سے تنگ ہیں پور املک یہ مطالبہ کررہا ہے کہ ان کو فوری طور پر واپس بھیجا جائے کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت ان کو ایک زبردست سیکورٹی رسک سمجھتی ہے اور عام لوگ ان کو معیشت اور سماج پر ایک زبردست بوجھ۔اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ صرف صحت کے شعبے میں بلوچستان کے بجٹ کا اسی فیصد ان افغانوں پر خرچ ہورہاہے ہر بڑے سرکاری اسپتال میں جائیں تو آپ کو اسی فیصد مریض افغان نظر آئیں گے ۔ یہی حال دوسرے شعبوں کا ہے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ دس لاکھ سے زائد روزگار پر افغانوں کا قبضہ ہے اگر یہ چلے گئے تو دس لاکھ روزگار مقامی لوگوں کو ملیں گے ۔اگر پشتون رہنماء بضد ہیں کہ ان کو پاکستان کے عوام ‘ پاکستان کی ریاست اور پاکستان کی معیشت پر بوجھ بنے رہنا چائیے تو کیایہ رہنماء یہ گارنٹی دیں گے کہ افغانستان ‘ بھارت سے تعلقات توڑ کر پاکستان کے ساتھ اتحاد بنا لے گا، اگر نہیں تو بین الاقوامی برادری افغانستان کے اندر تمام تارکین وطن کو کیمپوں میں رکھے اور ان کو اس وقت تک رکھے جب تک افغانستان کی حکومت ان کو قبول کرے ۔ ان تمام اخراجات کو اقوا م متحدہ برداشت کرے پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اب یہ پچاس لاکھ افغانوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی ۔