کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حلیف جماعتوں کو بلا کر افغان مہاجرین کو مزید ایک سال کی توسیع دینے کی سفارش قابل مذمت ہے گنتی کے چند اتحادی جماعتوں کو بلا کر آل پارٹیز کانفرنس کہنا عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے خیبرپختونخواء اور پنجاب سے افغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنانے کے بعد اس عمل میں توسیع سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران بلوچ قوم سے مخلص نہیں اب بھی گھناؤنی سازش کے تحت مردم شماری میں ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں صوبائی حکومت نے 2013ء کے جعلی الیکشن کے بعد افغان مہاجرین کی آباد کاری کیلئے راہ ہموار کر رہی ہے غیر قانونی دستاویزات بھی بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا افغان ثور انقلاب کے بعد جن القابات سے مہاجرین کو یاد کیا جاتا تھا اس سے بلوچستان کے ہر ذی شعور واقف ہے اس دور میں اور موجودہ دور میں بھی ذاتی مفادات کیلئے افغان مہاجرین کی مخالف اور اب حمایت کی گئی حکمرانوں نے دعوے کئے کہ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے مگر سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی سابقہ حکمرانوں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندان کی موجودگی میں صاف شفاف مردم شماری کیسے ممکن ہے یہ دراصل 2013ء کے جعلی انتخابات کی طرح ہونگے جو بلوچوں کو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں اس وقت ہی مردم شماری کو تسلیم کریں گے جب چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے بلوچوں کی واپس اپنے علاقوں میں آبادکاری کو یقینی بنایا جائے60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز کا اجراء کیا جائے انہوں نے کہا کہ 2011ء میں سیکرٹری شماریات اسلام آباد نے میڈیا کے سامنے بلوچستان کے پشتون اضلاع میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا تھا کہ مہاجرین کے گھروں کو دوسے چار بھر شمار کیا جس کی وجہ سے آبادی کا تناسب 400فیصد سے بڑھا پیش کیا گیا جو کسی طرح ممکن نہیں لیکن اب ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین خاندانوں کی موجودگی میں ہونے والی مردم شماری کسی بھی طور پر شفاف نہیں ہو سکتی دنیا کے مسلمہ قوانین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ غیر ملکیوں کی موجودگی میں مردم شماری کرائی جائے حکمرانوں کے دھرے معیار کا انداز اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک جانب مذہبی جنونیت ، انتہاء پسندی ، فرقہ واریت کے حوالے سے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن دوسری جانب افغان مہاجرین سمیت غیر ملکیوں کیلئے سہولیات حکمرانوں خود پیدا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں بلوچ عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بی این پی کو مزید فعال و متحرک بنائیں یہ واحد سیاسی قوت ہے جس کے رہنماؤں کارکنوں نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کے باوجود جدوجہد سے راہ فرار اختیار نہیں کیا بلکہ بلوچ جہد کو مزید بنانے میں کسی بھی کسر سے دریغ نہیں کیا کیونکہ پارٹی کے سامنے بلوچ سرزمین کی حفاظت ، تاریخ زبان و ثقافت اور اپنی مادر وطن و قومی تشخص کی جہد کو آگے بڑھا رہی ہے انہوں نے کہاکہ بلوچ قوم کو آج مختلف طریقوں سے سازشوں کے ذریعے مزید محرومیوں ناانصافیوں کے ذریعے معاشی اور معاشرتی طور پر پسماندگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے حالانکہ بلوچستان کے تمام وسائل بلوچ فرزندوں کی امانت ہے جو آباؤاجداد نے سامراجوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر حاصل کیا اور اپنی زبان و ثقافت و قومی تشخص کو ملیامیٹ ہونے نہیں دیا اب بلوچستان کے باشعور طبقات و افکار اور ذی شعور نوجوان ان حالات کا مقابلہ تب ہی کر سکیں گے جب وہ علم و آگاہی کو اپنا مشن بنائیں گے کیونکہ اکیسویں صدی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم قلم کو اپنا ہتھیار بنائیں اور جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے بلوچ قوم کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنائیں انہوں نے کہا کہ دو روز قبل اسلام آبا دمیں سرکاری جماعتوں جو صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں اتحاد ہیں جس میں حکمرانوں نے اپنے حلیف جماعتوں کی ناراضگی سے بچنے کیلئے مہاجرین کو مزیدایک سال توسیع دینے کی سفارش کی جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں اب تو جعلی پاسپورٹ بنانے کے الزام میں بھی گرفتاریاں ہو رہی ہیں آئے روز نادرا ، پاسپورٹ آفس میں چھاپوں سے یہ امر واضح ہے کہ باریک بینی کے ساتھ جاری شناختی کارڈز ، پاسپورٹ کی تصدیق کی گئی اور جعلی طریقے سے جاری شناختی کارڈز ، پاسپورٹ منسوخ کئے جائیں اور 60فیصد بلوچ جو دور دراز آباد ہیں ان کو شناختی کارڈز کے اجراء سمیت مشرف آپریشن میں بے گھر ہونے والے بلوچوں کو دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد کیا جائے اس کے برعکس مردم شماری جعلی ہوں گے جو بلوچوں کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہوں گے جو بلوچوں کے زخمیوں پر نمک پاشی کے مترادف ہوگا جس سے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا ۔