|

وقتِ اشاعت :   November 18 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان کے علاقے گڈانی میں شپ بریکنگ یارڈ میں بحری جہاز میں آتشزدگی کے بعد شپ بریکنگ یارڈ ویران اور مزدور بے روزگار ہے اور کئی دن گزرنے کے باوجود مزدور اس بات کی منتظر ہے کہ وہ واپس کام پر آئیں گے لیکن حکومت کی جانب سے تا حال گڈانی میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کے باعث دن کو مزدوری کرنیوالے پریشانی کا شکار ہے بابل سرمستانی کے بیٹے ان افراد میں شامل ہیں جو گڈانی میں آئل ٹینکر میں آگ لگنے سے ہلاک ہوئے اور وہ اپنے بیٹوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سیٹھ اور حکومت کو سمجھتے ہیں۔بابل سرمستانی حب موڑ کے میدانی علاقے میں اپنی برادری کے ساتھ رہتے ہیں۔ 40 گھروں پر مشتمل اس خاندان کے 13 نوجوان اس جہاز میں مزدوری کے لیے گئے تھے، جن میں سے 4 ہلاک ہوئے، ایک لاپتہ ہے اور 3 زیر علاج ہیں۔بابل نے بتایا کہ چھوٹے بیٹے غلام حیدر کی لاش سول ہسپتال میں ملی تھی جبکہ عالم زیر علاج تھا بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر فوت ہو گیا۔اس غریب برداری کے گھر لکڑی کے تختوں اور بانسوں سے بنے ہوئے ہیں، اندر کوئی فرنیچر نہیں۔ صرف مرچ مصالحے کی کچھ ڈبیاں، پینے کے پانی کے لیے کولر یا مٹکہ موجود ہے۔ کپڑے پوٹلی میں بندھے ہوئے یا ٹنگے ہوئے تھے۔گڈانی جانے والی ہر گاڑی ان کی بستی کے سامنے سے گذرتی ہے لیکن وزرا اور حکام میں سے یہاں کوئی نہیں آیا۔ بابل کے مطابق وہ غریب لوگ ہیں اس لیے ان کے پاس کوئی نہیں آتا اور حکومت بھی کوئی تعاون نہیں کر رہی ہے۔امام بخش کے دونوں گردے خراب ہو چکے ہیں اور ان کا اکلوتا بیٹا اس حادثے میں ہلاک ہو گیا۔انھوں نے بتایا کہ انھیں انتظار تھا کہ بیٹا رات کو واپس آ جائے گا اور جب رات کو نہ آیا تو سوچا صبح کو آئے گا لیکن صبح کو کسی نے بتایا کہ جہاز میں دھماکہ ہوا ہے۔ وہ سڑک کی طرف دوڑے تو دیکھا ایمبیولینسوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور انھیں معلوم ہوا ان کے لڑکے بھی اسی جہاز میں موجود تھے۔اْن کے مطابق اْس کے بعد کوئی کدھر دوڑا کوئی کدھر گیا۔ ’میں پریشان ہوگیا کہ بیمار آدمی کہاں جاؤں بعد میں ہپستال سے فون آیا کہ میرا اکلوتا بیٹا ہلاک ہو گیا۔ ہم دس کھانے والے ہیں وہ صرف ایک ہی کمانے والا تھا اب حکومت ہماری کوئی مدد کرے۔