ترک صدر اردگان کی پاکستان آمد سے چند روز قبل وفاقی حکومت نے ترک اساتذہ کو ملک بدری کا حکم تھما دیا ۔شاید ترک صدر کی آمد سے قبل طیب اردگان کو یہ تحفہ دینا مقصود تھا کہ ہم بھی ترک اساتذہ کے خلاف کارروائی کررہے ہیں ۔ حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی افسوسناک اور یہ تعلیم دشمنی کے مترادف ہے ۔ ترک اساتذہ کے زیر تعلیم تقریباً 12 ہزاربچے ہیں ترک اسکول پاکستان میں اپنی معیاری تعلیم کے بارے میں اچھی ساکھ رکھتے ہیں اور والدین زیادہ سے زیادہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ معیاری تعلیم کے لئے ترک اسکولوں کے نظام سے فائدہ اٹھائیں۔ جب حکومت پاکستان اور خصوصاً غیر مقبول وزارت داخلہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ترک اساتذہ کو صرف طیب اردگان کو خوش کرنے کی خاطر ملک بدر کیا جائے۔ پورے ملک میں ہر طبقہ فکر نے اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اس حکم کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ ہزاروں چھوٹے چھوٹے طلباء اور طالبات ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے حکومت کی اس آمرانہ اور غیر جمہوری اقدام کی سرعام مذمت کررہے ہیں کیونکہ یہ چاپلوسی کی بد ترین مثال ہے کہ ترک صدر کے پاکستان آمد پر ترک اساتذہ کو بغیر کسی جرم کے یہ سزا دی جائے اور ان کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں ۔ ٹھیک ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ریاستی تعلقات قریبی ہیں لیکن دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بھی برادرانہ تعلقات ہیں ۔ ہمیں ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش نہیں کرنی چائیے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ اکثریت کی حمایت میں اقلیت کے حقوق کو پامال کریں ۔ ترک اساتذہ نے پاک سرزمین پر کوئی جرم نہیں کیاہے بلکہ انہوں نے پاکستانی عوام کی خدمت کی جس کی سزا ان کو دی جارہی ہے ہمارا بھی مطالبہ ہے وفاقی حکومت ان اساتذہ کے خلاف تمام احکامات واپس لے اور ترک اسکولوں کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش ترک کردے اور نہ ہی ہم کو ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنی چائیے۔