|

وقتِ اشاعت :   November 21 – 2016

بلوچستان ایک وسیع خطہ ہے ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں دو کروڑ ایکڑ سے زیادہ زر خیز زمین کاشتکاری کے لئے موجود ہے ۔ یہ بات حکمرانوں کو گزشتہ ستر سالوں سے معلوم ہے لیکن انہوں نے اتنی وسیع و عریض زمین پر کاشت کاری کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ۔ 1991ء میں جب صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوگیا تو بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی دیا گیا یہ صوبوں کا متفقہ فیصلہ تھا آج دن تک یعنی پچیس سال گزر نے کے بعد بھی بلوچستان کو اس کا تسلیم شدہ حق نہیں دیاگیا بلکہ جان بوجھ کر نہیں دیا گیا ۔ یہ پانی آج بھی سندھ او رپنجاب استعمال کررہے ہیں اس پانی کو استعمال میں لانے کے لئے کچھی کینال کاپرانا منصوبہ قابل عمل بنانے کا فیصلہ کیا گیا گزشتہ پچیس سالوں سے کچھی کینال ابھی تک زیر تعمیر ہے ۔ حکمرانوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس سال دسمبر تک کچھی کینال کی تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے گا جس سے تقریباً ایک لاکھ ایکڑ زمین بگٹی قبائلی علاقے میں زیر کاشت آئے گی عین وقت پر مکمل ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ کچھی کینال پر تمام تعمیرات غیر معیاری اور نا پائیدار ہیں ۔ اسی دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ کچھی کینال کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوا ہے ٹھیکے دار‘ انجینئراور افسران نے دونوں ہاتھوں سے منصوبے کو لوٹ لیا ہے دوسری جانب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اب کچھی کینال کی تعمیر کی لاگت میں ستر ارب روپے کا مزید اضافہ ہوگا پہلے یہ منصوبہ پچاس ارب میں مکمل ہونا تھا چونکہ اس منصوبے کی تعمیر میں دہائیوں کی دیری کی گئی اور جان بوجھ کر کی گئی لہذااب اس کی لاگت 120ارب تک پہنچ گئی ہے ۔جو حصہ تعمیر ہوا ہے وہ غیر معیاری ہے کچھی کینال کے ذریعے بلوچستان کی صرف سات لاکھ ایکڑ زمین آباد ہونی ہے ۔ اس میں پچیس سال کا عرصہ جان بوجھ کر ضائع کیا گیا، یہ حکمرانوں کی بلوچستان کے بارے میں معاملات میں عدم دل چسپی کا ایک زبردست مظاہرہ ہے۔ بلوچستان کی وفاق اور وفاقی اداروں میں نمائندگی صفر کے برابر ہے ۔ بلوچستان کے جائز مفادات کی وفاق پاکستان کے اندر نگرانی نہیں ہورہی ہے پارلیمان کے اراکین کا عوام اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے کوئی سرو کار نہیں ۔ وہ صرف اپنے ذاتی مفادات کی نگرانی کررہے ہیں اس لیے کچھی کینال جیسے بڑے اور عظیم منصوبے طوالت کا شکار ہیں اگر ارکان پارلیمان کو دلچسپی ہوتی تو آئے دن یہ مسئلہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اٹھاتے رہتے ۔ یہ بات واضح ہے کہ غیر بلوچ نمائندوں کو اس منصوبہ میں دلچسپی نہیں ہوگی ۔ چنانچہ بلوچ اراکین پارلیمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس منصوبہ کو اب جلد سے جلد مکمل کرائیں اور وہ بھی معیاری تعمیرات کے ساتھ ۔ اس کے علاوہ یہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہزاروں ندیوں اور چھوٹے بڑے دریاؤں پر بند تعمیر کرانے کیلئے منصوبہ بندی کرے تاکہ وفاقی حکومت سے کہاجاسکے کہ ان کی تعمیرات کے لیے وسائل مختص کیے جائیں ۔ گزشتہ ادوار میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے نام پر بڑا فراڈ کیا گیا تھا ان تمام کی تحقیقات کی جائے کہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے نام پر اربوں روپے وفاقی اور صوبائی حکومت سے لوٹے گئے ہیں ۔تمام بڑے بڑے دریاؤں پر ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کی جائے اور تمام پرانے ڈیموں کو صاف کیاجائے اور ان کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے خصوصاً گوادر کے قریب انکاڑہ ڈیم کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے ۔ دریائے دشت پر زیرین کے علاقے میں ایک اور ڈیم بنایا جائے تاکہ گوادر کے لئے پانی کی ضروریات کو پورا کیاجا سکے ۔