گزشتہ دنوں کچھی کینال کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے چیف سیکرٹری کی موجودگی میں ملاقات کی اور ان کو منصوبہ سے متعلق تازہ ترین اطلاعات فراہم کیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ وفاقی حکومت کچھی کینال کی جاری اسکیم کے لئے 15ارب روپے جلد ریلیز کرے ۔ وزیراعلیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ خود وفاقی حکومت سے اس سلسلے میں بات کریں گے۔ وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ کچھی کینال کا موجودہ مرحلہ جون2017ء کو مکمل ہوگا۔ اس سے بگٹی قبائلی علاقے میں 55ہزار زرخیز زمین سیراب ہوگی کچھی کینال منصوبے کے تحت بلوچستان کے میدانی علاقوں میں سات لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین آباد ہوگی ۔ پہلے مرحلے کی تعمیرات کو اس سال دسمبر میں مکمل ہونا تھا ،جب وفاقی حکومت کے اہلکاروں نے چند ماہ قبل اس منصوبے کا معائنہ کیا جو تیاری کے آخری مراحل میں تھا تویہ انکشاف ہوا کہ کچھی کینال کی تعمیرات غیر معیاری ہیں اور اس میں بڑے پیمانے پر گھپلے ہوئے ہیں ۔ تعمیراتی سامان غیر معیاری استعمال ہوئے ۔ اس بنیاد پر منصوبے کے موجودہ ذمہ داران اور ٹھیکیدار کو سخت ہدف تنقید بنایا گیا اور وفاقی اہلکاروں نے پہلے مرحلے کی تعمیر اور اس کی وصولی سے انکار کردیا اور ٹھیکیدار اور ذمہ دار انجینئرحضرات کو ہدایات دی گئیں کہ وہ تعمیرات کو معاہدے کے مطابق معیاری بنائیں ۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ کچھی کینال کی لاگت میں زبردست اضافہ ہوا ہے یہ اضافہ ستر ارب روپے کے قریب ہے ۔ چونکہ منصوبہ کو مکمل کرنے میں دیر کردی گئی جس کی وجہ سے تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے روپے کی قدر میں بھی کمی آئی ہے ۔ پہلے کچھی کینال کو پچاس ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونا تھا اب ماہرین معاشیات اور سرکاری اہلکار یہ کہتے ہیں کہ اب منصوبہ پر 120ارب روپے کے اخراجات آئیں گے یعنی لاگت میں تقریباً ستر ارب روپے کا اضافہ ہوگا ۔ چیف سیکرٹری وزارت پانی اور بجلی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں ان سے بہتر کچھی کینال اور اس کی افادیت کوئی نہیں جانتا اس لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ کچھی کینال کے پہلے مرحلہ کی وصولی صوبائی حکومت نہ کرے ساتھ ہی وفاقی حکومت پر دباؤ بر قرار رکھے کہ اس کو جلد سے جلد مکمل کیاجائے کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہوگا۔ پہلے ہی وفاقی حکومت اور اس کے اداروں نے پچیس سال کی دیری کردی اگر یہ منصوبہ لاہور کے منصوبوں کی طرح توجہ حاصل کرتا تو اس وقت تک ریاست پاکستان کو اربوں روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ، لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا اور سب سے بڑھ کر بلوچستان غذائی پیدا وار کے لحاظ خود کفیل ہوتا اور ستر ارب روپے اضافی رقم کی زبردست بچت ہوتی ۔ صوبائی حکومت غیر معیاری تعمیرات کی حوصلہ افزائی نہ کرے اور وفاق پر اپنا دباؤ بڑھائے کہ اس کو جلد از جلد مکمل کرے بلکہ اس منصوبے کے ہر پہلوپرکام کی رفتار کو بڑھایا جائے تاکہ آئندہ ایک دو سالوں میں یہ منصوبہ مکمل ہو اور بلوچستان کی سات لاکھ ایکڑ زمین کچھی کینال سے سیراب ہو ۔