|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2016

یہ ایک خوش آئند خبر ہے کہ صوبائی حکومت ریلوے نظام میں دلچسپی لینی شروع کی ہے ۔ وفاقی بجٹ میں بھی رواں سال ریلوے کے لئے زمین خریدنے کے لئے رقم مختص کی گئی ہے اور ریلوے حکام نے بنیادی کام شروع کردیا ہے گوادر کو ریلوے نظام سے منسلک کرنے کے لئے کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے کا کلیدی کردار ہونا چائیے کیونکہ کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے بین الاقوامی ریلوے کے نظام کا حصہ بن گیا ہے زاہدان سے ریل دنیا بھر کو جاتی ہے ۔ ایران کی حکومت زاہدان اور کرمان کے درمیان ریلوے کے خلاء کو کب کا پر کر چکی ہے ۔ اب زاہدان سے ٹرین تہران اور ترکی تک جارہی ہے ۔ کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے ٹریک کو زیادہ مضبوط پائیدار اور بین الاقوامی معیار پر لے آئیں تو پورا پاکستان مغربی ایشیاء اور یورپ کے ریل کے نظام سے بھی منسلک ہوجائے گا۔ یاد رہے جب یونی کول نے ترکمان گیس پائپ لائن بچھانے کا ارادہ کیا تھا تو اس وقت گیس پائپ لائن کے ساتھ ساتھ سڑک اور ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ تھا کہ گوادر کو وسط ایشیائی ریاستوں سے ریل اور سڑک کے ذریعے ملایاجائے۔ اس مقصد کے لئے ایشیائی ترقیاتی بنک نے بارہ ارب ڈالر مختص کیے تھے چونکہ یونی کول نے افغان طالبان کی طرف سے مزاحمت اور مخالفت کے باعث اپنا منصوبہ ختم کردیا تھا لیکن ایشیائی ترقیاتی بنک کی رقم اس مقصد کے لئے موجود ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کو گوادر‘ چاہ بہار راہداری سے منسلک کیاجائے ۔ہم نے پہلے بھی اس اسکیم کی حمایت کی تھی اور حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ گوادر کو پہلے مرحلے میں کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے نظام سے منسلک کیاجائے، پھر نوکنڈی سے افغانستان کے شہر ہرات تک دوسری ریلوے لائن ڈالی جائے تاکہ گوادر ایک طرف مغربی ایشیاء اور یورپ اور دوسری طرف وسط ایشیائی ممالک کی تجارتی ضروریات پوری کرے ۔ گوادر حقیقی معنوں میں ایک گیم چینجر ضرور ہے مگر اس کی ترقی کا راز صرف اور صرف مغربی ایشیاء اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ منسلک ہے ۔ گوادر ‘ مستونگ ریلوے کے فوائد پچاس سال بعد ملیں گے جبکہ وسط ایشیاء یا مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ لنک اپ کا فائدہ آنا شروع ہوجائے گا ۔ چین کو ریلوے لائن بچھانے کا وسیع تجربہ ہے خصوصاً افریقی ریلوے کی تعمیر چین کے مرہون منت ہے ۔ چین کو اگر اس میں شامل کیاجائے تو گوادر ریلوے پروجیکٹ جلد تعمیر ہوگا۔ اور پاکستان صرف راہداری کے ذریعے کم سے کم دس ارب ڈالر سالانہ کما سکتی ہے ۔ موجودہ حالات میں گوادر مستونگ ریلوے لائن کوئی معنی نہیں رکھتا نہ ہی اس کی معاشی افادیت ہے اور نہ ہی اتنی بڑی تجارت پورے بلوچستان میں موجود ہے کہ وہ ریلوے لائن مالیاتی فوائد کے ساتھ چلائے بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض چالاک اور ملک دشمن عناصر نے گوادر پورٹ کے منصوبے کو ناکام بنا نے کے لئے گوادر کو پہلے مستونگ سے ملانے کی تجویز دی ہے ہمارے ریلوے کی اہلیت کا اندازہ ہم سب کو بخوبی ہے کہ ریلوے کے افسران اس منصوبے کو پچاس سال میں بھی مکمل نہیں کرسکیں گے۔ جہاں کوئٹہ کے اندر ایک شٹل ٹرین چلانے کیلئے انہوں نے سی پیک اور چین کو بلا کر عالمی مسئلہ بنا لیا ۔ ریلوے آئے دن پاکستان بھر میں شٹل ٹرین چلاتی رہتی ہے ۔ ہزار گنجی سے کچلاک تک بھی ایسا ہی ایک شٹل ٹرین چلائی جائے اور اس شٹل ٹرین کوعالمی مسئلہ نہ بنایاجائے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے افسران اور چاپلوس حضرات یہ ڈرامے بازی چھوڑ دیں تو بہتر ہے ۔ اس کو شٹل ٹرین کے طور پر ہی چلایاجائے۔