توقع کے مطابق پوری کی پوری وفاقی حکومت بمعہ اس کے تمام اداروں کے چند پختون رہنماؤں کے دباؤ میں آگئی اور ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا کہ افغانستان سے آئے ہوئے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو مزید ایک سال تک پاکستان اور اس کی خراب ترین معیشت پر بوجھ رہنے دیا جائے۔ اور اب یہ غیر قانونی تارکین وطن اگلے سال دسمبر تک ہمارے مزید مہمان ہوں گے ۔ اور ان کو وہ تمام آزادیاں حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو اپنے ملک میں حاصل نہیں ہیں ۔ پہلے تو ایک ڈرامہ رچایا گیا جس میں بعض سیاستدانوں کو بلا کر یہ فیصلہ لیا گیا کہ افغان مہاجرین اور تمام غیر قانونی تارکین وطن کے پاکستان کے اندر قیام میں مزید ایک سال کی توسیع کی جائے ۔ اس کے بعد وفاقی کابینہ کا ایک اجلاس ہوا جس میں اس بات کی توثیق کی گئی کہ تمام افغانوں ‘ بشمول غیر ملکی تارکین وطن کو اگلے سال دسمبر تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہوگی ۔ اس سے قبل وزیراعظم نے یہ بر ملا اعلان کیا تھا کہ اس سال دسمبرتک تمام غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو واپس گھر بھیج دیا جائے گا ان کا یہ بیان انتہائی سخت تھا‘ بہر حال اس کے بعد سے ہر سال اس میں توسیع کی جارہی ہے ۔ یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہے کہ وہ اس طرح افغان حکمرانوں کے دل جیت لیں گے اور ان کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرائیں گے ۔اس کے لئے ہمارے حکمران بھارت میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت بھی کررہے ہیں اور کل ہی حکومت پاکستان نے باضابطہ یہ اعلان کردیا ہے کہ افغان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین اگلے سال دسمبر تک پاکستان میں رہنے کے اہل ہوں گے اس کا مقصد افغان حکمرانوں کی خوشامد کے سوا کچھ نہیں ۔ ان کو پاکستان اور اس کی حکومت پر کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ اس عدم اعتبار کے ماحول میں پاکستان کی حکومت اس قسم کے کوتاہ اندیش فیصلوں سے کوئی سیاسی یا سفارتی فائدہ افغانستان سے حاصل نہیں کرسکے گی ۔ جہاں تک افغان عوام کے ملک کے اندر مشکلات کا تعلق ہے ہمیں اس صورت حال میں افغان عوام سے ہمدردی ہے ۔ لیکن اس میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کا کوئی قصو رنہیں ہے بلکہ یہ افغانستان کے جنگی سردار ہیں جو کرایہ کے فوجی ہیں اور دوسروں کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑ رہے ہیں امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اربوں ڈالر افغانستان کی ترقی کے لئے مختص کیے اور وہ سب افغان جنگی سرداروں نے ہڑپ لیے ۔ اگر افغانستان انتہائی پسماندہ ہے اور اس قابل نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو با عزت طورپر دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کر سکے تو اس میں پاکستان یا پاکستان کے عوام کاقصور نہیں ۔ حکومت کے اس فیصلے کا مطلب یہ لیاجائے کہ ملک میں اگلی مردم شماری ان افغان غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی یعنی دسمبر 2017ء تک نہیں ہوں گے۔ یہ مردم شماری اب 2018ء میں ہو گی کیونکہ ا س سے قبل مردم شماری کو بلوچ قطعاً قبول نہیں کریں گے۔ بلوچ وفاق کی ایک اہم ترین اکائی ہے ۔ اس کی مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ویٹو کردیا گیا ۔ البتہ ایک صورت ضرور ہے کہ حکومت ان تمام افغانوں بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو خار دار کیمپوں میں رکھے۔ ان کی آمد و رفت پر سخت پابندی لگائے اور ان کو دور دراز علاقوں میں ایک مخصوص علاقے تک محدود کردیاجائے جس سے بلوچ عوام اور خواص کی تسلی ہو تو پھر مردم شماری قابل قبول ہوسکتی ہے ۔ لیکن یہ نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ حکومت کے پاس یہ اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ اتنا بڑا فیصلہ لے اور بین الاقوامی برادری کو راضی کرے کہ ان کے اخراجات کو پورا کرے ۔ بہر حال وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ افسوس ناک ہے لیکن عوام الناس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ نہیں کہ ان کو ملک بدر کیاجائے اس لیے عوام الناس بحالت مجبوری اس کو احتجاج کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکاجائے اور ان کو گرفتار کرکے ملک بدری کا عمل آج سے شروع کیاجائے ۔ان افغان مہاجرین اور غیر ملکی تارکین وطن پر یہ باور کرانا ضروری ہے کہ پاکستان ان کا وطن نہیں ،پاکستان پر ان کاکوئی حق نہیں ہے اس لیے وہ از خود جلد سے جلد اپنے وطن واپس جائیں اس میں ہی ان کی اور پاکستان کی بھلائی ہے ۔