|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2016

کم و بیش پورا بلوچستان بجلی کی نعمت سے محروم ہے بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبے بھر میں ٹرانسمیشن لائن کی لوڈ برداشت کرنے کی صلاحیت 400میگا واٹ ہے ۔ بلوچستان نصف پاکستان ہے اور 400میگا واٹ کی صلاحیت کی بجلی محدود ترین علاقوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ مکران اور دوسرے بڑے خطے بجلی سے محروم ہیں ۔ گزشتہ ستر سالوں سے حکومتیں ٹرانسمیشن لائن نہیں تعمیر کر سکیں، ان کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی ہورہی ہے ۔ بجلی، گیس ‘ پانی، سڑک، ٹیلی مواصلات اور دیگر سہولیات کے بغیر کہاں کی ترقی ‘ کیسی ترقی۔ ابھی تک طاقتور حکمرانوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کارخانے وندر کے علاقے سے ہٹ کر لگائے جائیں۔ سرکاری شعبہ میں ایک بہت بڑا کارخانہ اوتھل میں ایران کی مدد ے لگایا گیا تھا وہ بھی حکمرانوں سے برداشت نہ ہوا ۔ پہلے اس کو ڈاکو افسران سے مل کو چلایا گیا بلکہ لوٹ لیا گیا اور بعد میں اسکو بند کردیا گیا کیونکہ اس مل میں یہ بڑی صلاحیت تھی کہ وہ دس ہزار لوگوں کو ملازمت فراہم کررہا تھا۔ بلوچستان میں روز گار فراہم کرنا یا روزگار کے ذرائع کو فروغ دینا مقتدرہ کی پالیسی نہیں ہے اس لیے اوتھل اور کوئٹہ کے کپڑے کے مل نہ صرف بند کردئیے گئے بلکہ مل کی مشینری صرف سولہ کروڑ میں سابق گورنر اویس احمد غنی نے اپنے اختیارات کے زور پر خرید لی حالانکہ اس مشینری کی قیمت اربوں روپے تھی اور مزدوروں نے اس کو بہت ہی اچھی حالت میں رکھا ہوا تھا ۔ اس لیے صنعتی ترقی کو صرف وندر تک محدود کردیا گیا ہے ساتھ یہ بھی ان سے تمام ٹیکس مراعات واپس لیے لیے تاکہ نئی سرمایہ کاری نہ آئے ۔لوڈشیڈنگ کا معاملہ انتہائی تشویش ناک ہے کوئٹہ میں اس کا دورانیہ چھ گھنٹے سے کم کرکے چار گھنٹے کردیا گیا مگر بریک ڈاؤن میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی بہانے طویل عرصہ تک بجلی بند کردی جاتی ہے ۔ بعض اوقات یہ بریک ڈاؤن چھ سے آٹھ گھنٹے تک کا ہوتا ہے ۔ خصوصاً مہینے کے آخری دنوں میں لائن لاسز کو پورا کرنے کے لئے طویل دورانیہ کی بندش ہوتی ہے ۔ ظلم کی انتہاہے کہ حکومتی اداروں کی نا اہلی کا جرمانہ صارفین بھگتیں ، سزا صارفین کو دی جائے۔ ایک طرف فالٹ کو دور کرنے کے بہانے طویل دورانیہ کی بجلی کی بندش اور دوسری جانب ریاستی اداروں کی طرف سے ایسے میٹرز لگائے گئے جو تیس فیصد زیادہ بل بھی بتاتے ہیں ۔ہم بلوچستان ہائی کورٹ اور وزیراعلیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ان الزامات کی تحقیقات کرائی جائے کہ ریاستی ادارے صارفین کو لوٹ رہے ہیں اور غیر اخلاقی کام میں ملوث ہیں ۔جہاں تک دور دراز کی بات ہے خضدار جو بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے بلکہ وزیراعلیٰ کا آبائی شہر ہے وہاں پر دن میں بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے خضدار شہر سے دور دیہات کے لوگوں کو 48گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے فراہم کی جاتی ہے ۔ بلوچستان خود 2400میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اس کے ٹرانسمیشن لائن کی استطاعت صرف 400میگا واٹ سے چھ سو میگا واٹ ہے ۔ نصف سے زائد علاقے کو ٹرانسمیشن لائن ہی میسر نہیں ہے ۔ ان میں ساحلی علاقے پورا مکران ‘ خاران کا وسیع علاقہ ‘ چاغی جہاں پر حکومت نے ستر سالوں بعد بھی بجلی کی سہولیات فراہم نہیں کیں بلکہ ابھی تک اس کا ارادہ بھی نظر نہیں آتا ۔ اگر حکومت کو یہ دلچسپی ہوتی کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کو بجلی کی سہولت پہنچائی جائے تو وہ ایران سے زیادہ سستی بجلی خریدتی۔ گزشتہ تیس سالوں میں وفاقی حکومت صرف زبانی جمع خرچ پر گزارا کرتے آرہی ہے اور اس نے تیس سال میں ایران سے بجلی جان کر نہیں خریدی کیونکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو یا نہ ہو بلوچستان کی قسمت ضرور بدل جاتی ۔ ہمارے بجلی کا پیداواری خرچ بارہ امریکی سنٹ ہے جبکہ ایران ہم کو صرف چھ امریکی سنٹ فی یونٹ بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تین اطراف ‘ زاہدان ‘ گوادر اور مند کے پاکستانی سرحدوں پر ایران نے بجلی پہنچا دی ہے ۔ پاکستان کی حکومت ہے کہ سستی بجلی خریدنے کو تیارنہیں ہے ۔وفاقی حکومت پر ہمارے پارلیمان کے نمائندے اور صوبائی حکومت دباؤ ڈالنے سے قاصر ہیں ۔اگر دباؤ ڈالیں تو ایران سے بجلی خرید نے میں پیشرفت ہوگی۔ ایرانی سرحد موجود بجلی کی اہمیت کو زائل کرنے کے لئے ہمارے حکمران دور دراز ملکوں کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان ممالک سے بجلی خریدیں گے ان کے ساتھ معاہدے کریں گے جبکہ ایران نے بجلی ہمارے گھر کے اندر تک پہنچا دی ہے بلکہ ایک دہائی پہلے پہنچائی ہے ۔ اس کے باوجود بھی ہم بجلی نہیں خریدتے تاکہ ہمارے عوام کو راحت نہ ملے اور ملک مجموعی طورپر ترقی نہ کرے ۔