|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان میں جعلی ادویات کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کیلئے مقدمات تیار کر لئے گئے۔ جس کے تحت جعلی ادویات کے کاروبار میں ملوث افراد میڈیکل سٹورز اور جعلی ادویات بنانے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی جس کے لئے تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں۔جعلی ادویات کے کاروبار میں ملوث تمام جرائم پیشہ افراد کو عبرتناک سزائیں دلوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ایسے تمام میڈیکل اسٹورز جن میں جعلی ادویات فروخت کی جاتی ہیں اور جعلی اددویات تیارکی جاتی ہیں انکے کیخلاف صوبائی کوالٹی کنٹرول نے 44 مقدمات تیار کئے ہیں اور ان مقدمات کو چلانے کیلئے مقامی عدالتوں میں پیش کردیا گیا ہے تاکہ ان کے خلاف کارروائی ممکن ہو یہ مقدمات دو طرح کے ہیں ایک گروپ میں 12 مقدمات اور دوسرے میں 32 مقدمات ہیں ان میں غیر معیاری جعلی اور غیر رجسٹرڈ شدہ ادویات بھی شامل ہیں غلط برانڈ کے ادویات کیخلاف بھی کاررائی ہوگی۔ الزامات ثابت ہونے پرملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ دس سال جیل اور کم سے کم سات سال جیل ہوسکتی ہے اسی طرح اس میں کم سے کم جرمانہ دو لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ روپے ہوگا ۔واضح رہے کہ روزنامہ آزادی میں جعلی ادویات سے متعلق ایک خبر تفصیل سے شائع کی گئی تھی جس کا وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے سختی کے ساتھ نوٹس لیا تھا اور متعلقہ حکام کو یہ ہدایات جاری کیں تھیں کہ مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے ۔یاد رہے کہ بورڈ نے پہلی بار اس قسم کے مقدمات کو عدالتوں کے سپردکر دیا ہے اور سخت ترین کارروائی کی توقع کی جا رہی ہے گزشتہ دس سالوں میں اس قسم کے مقدمات کو عدالت میں نہیں بھیجا گیا اور مدت ختم ہونے کے بعد یہ مقدمات خود بخود ختم ہوگئے تھے ابھی پہلی بار 44 مقدمات عدالتوں میں کارروائی کیلئے داخل کئے گئے ہیں بورڈ کا ایک اور اجلاس یکم دسمبر کو متوقع ہے جس میں 16 مزید مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کئے جائیں گے یہ تمام مقدمات ڈرگ ایکٹ کے تحت عدالتوں میں کارروائی کیلئے روانہ ہو گئے ہیں بعض مبصرین نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی گئی نواب زہری کے حکم پر یہ کارروائی ہو رہی ہے اور ان کا حکم تھا کہ مجرموں کو سخت سزا دی جائے جو انسانوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں حیرت کی بات ہے کہ کوالٹی کنٹرول بورڈ کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے اور ڈرگ ریگولیرٹی اتھارٹی نے وہ تمام کوائف حکومت بلوچستان کو فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے جس کی وجہ سے کارروائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے صوبہ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں بغیر لائسنس یافتہ میڈیکل اسٹورز ہیں بعض ادویات کا لائسنس نہ ہونے کے باوجود کمپنیاں یہ دوائیں تیار کر رہی ہیں سب سے اہم ترین مسئلہ سرکاری ڈرگ اسٹورز اور ہسپتالوں میں چوری کے ادویات کا معاملہ ہے یہ سب دوائیں میڈیکل اسٹورز میں فروخت ہو رہی ہیں لیکن کوئی ایسا قانون نہیں کہ ان چوری کرنے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے کرائم کی صورت میں کوئی افسر مقدمات دائر کرنے کو راضی نہیں ہوتا اس لئے ادویات کی چوری پاکستان میں قانونی سمجھی جاتی ہے گزشتہ دنوں کوئٹہ کے ایک اسٹورز سے بڑی پیمانے پر حکومت سندھ کے ہسپتالوں اور اسٹورز کی ادویات برآمد ہوئیں اس سے قبل وزیرستان سے لائی ہوئی ادویات کوئٹہ میں فروخت کرتے ہوئے پکڑی گئیں ان تمام جرائم کی روک تھام کیلئے صوبائی حکومت نے کمیٹیاں بنائی ہیں اور علاقے کے تھانیدار کو بھی اس کا رکن بنایا گیا ہے تاکہ کارروائی میں تیزی لائی جائے