صوبائی حکومت نے تاریخ میں پہلی بار جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ابتداء کی ہے اور مقامی عدالتوں کو 44مقدمات کے چالان روانہ کیے ہیں جن میں غیر معیاری ‘ جعلی اور غیر رجسٹرڈ اور غلط برانڈ کے ادویات کے مقدمے شامل ہیں ۔ گزشتہ سالوں ڈرگ انسپیکٹر اور پولیس کے اہلکار جعلی ادویات کا کھوج لگاتے اور ان کو جعلی ادویات تیار کرتے پکڑے تھے ۔ مگر ڈرگ مافیا نے صوبائی محکمہ صحت کے افسران سے مل کر ان کو مقررہ مدت میں عدالتوں میں جان بوجھ کر پیش نہیں کیا اور اس پر ملزمان رہا ہوگئے بلکہ انہوں نے دوبارہ وہی کاروبار شروع کیا اور انسانی زندگیوں سے دوبارہ کھیلنا شروع کردیا ۔ اس بار یہ مقدمات عدالت میں پیش کیے گئے اس امید کے ساتھ اس صوبے میں انسانیت کے دشمن عناصر کا ضرور صفایا ہوگا اور مکمل ہوگا ۔ ان میں سے بعض مقدمات 2011ء کے ہیں جن کودوبارہ فعال بنا کر عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے ۔ مزید سولہ مقدمات سے متعلق فیصلہ کوالٹی کنٹرول بورڈ کے اجلاس میں ہوگا جو یکم دسمبر کو ہونے والا ہے ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سرکاری اسٹورز اور اسپتالوں سے چوری ہونے والی ادویات سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے اگر کوئی قانون موجود ہے تو وہ اتنی کمزور ہے کہ ملزم کے خلاف ڈرگ ایکٹ کے تحت مقدمات قائم نہیں ہو سکتے ۔ یہ مقدمات مجوزہ اور رائج کرمنل لاء کے تحت ہوں گے جس کے لئے ایف آئی آر کا درج ہونا ضرور ی ہے بلوچستان کا کوئی بھی افسر ایف آئی آر درج کرنے کو تیا رنہیں ہوتا ۔ اس لیے میں ہم یہ کہتے ہیں سرکاری ادویات کی چوری کی کوئی سز انہیں ۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ کے ایک میڈیکل اسٹور سے بڑی تعداد میں سندھ حکومت کی چوری شدہ ادویات بر آمد ہوئیں ۔ اب اس قانونی برآمدگی کا کیا کیا جائے کوئی محکمہ صحت کا افسر ایف آئی آر درج کرائے تاکہ بڑے پیمانے پر سرکاری ادویات کی چوری کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے ۔ بلوچستان میں صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے ۔ صوبائی حکومت اصلاح احوال کرے تاکہ سرکاری اسپتالوں سے ادویات کی چوری کا سلسلہ بند ہوجائے اورسرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کے عزیزوں کو بازار سے ادویات خریدنے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسرا ایک اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ درجن بھر سے زائد کمپنیاں ہیں یا ادارے ہیں جو جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث ہیں جب کبھی حکومت ٹینڈر جاری کرتی ہے تو یہ ادارے بھی اس میں شامل کیے جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ حکومت بلوچستان نے ان اداروں اور کمپنیوں کو نا اہل Disqualifyنہیں کیا ہے ۔ اور وہ ابھی بھی حکومت بلکہ کرپٹ افسران کی اچھی لسٹ میں موجود ہیں کیونکہ ان کا تعلق ڈرگ مافیا سے بنتا ہے ۔ اگر حکومت اور متعلقہ افسران ان کو نا اہل قرار دیں اس کے بعد ان کو بلیک لسٹ کیا جائے جو عین عوامی مفادات کے حق میں ہے ورنہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف مہم کا کوئی فائدہ نہیں ہے صوبائی حکومت کے بعض اہلکار ان تمام بد عنوانیوں میں ملوث ہیں ۔ کرپشن اس حد تک ڈھٹائی کے ساتھ ہورہا ہے کہ ڈرپ جو سرکاری طورپر فراہم کیا جارہا ہے اور خصوصاً ان مریضوں کے لئے جومرگ اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں، کو لگائے گئے تو بعض اوقات ان ملاوٹ شدہ پائے گئے بلکہ بعض ڈرپز میں اجنبی اجناس Foreign Bodiesپائے گئے یہ حال ہے سرکاری ادویات کی وہ بھی زندگی بچانے والے ادویات کی ۔