|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2016

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مردم شماری 2ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بغیر مردم شماری کے الیکشن عوام کے ساتھ مذاق ہے ،حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہمارے پاس وزیر اعظم کو بلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئندہ سماعت پر حکومت 15 مارچ سے15 مئی 2017تک مردم شماری کیلئے وزیر اعظم کے دستخط شدہ شیڈول د یں ورنہ وزیر اعظم کو بلائیں گے۔جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں مردم شماری ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مردم شماری کیلئے تمام صوبوں کی شمولیت ضروری ہے ڈویژن کی سطح پر انتظامات مکمل کرلئے ہیں پہلی مرتبہ پاکستان میں مردم شماری کیلئے کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کیا جارہا ہے جونہی انتظامات مکمل ہونگے مردم شماری کروادینگے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری ہوتی نظر نہیں آرہی لگتا ہے وزیراعظم کو بلا نے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا، مردم شماری نہیں کروانی تو آئین میں ترمیم کرلیں حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں ہے جبکہ بغیر مردم شماری الیکشن عوام کے ساتھ مذاق ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی پالیسیاں ہوا میں بن رہی ہیں عوام کی تعداد کسی کو معلوم ہی نہیں قومی معاملے پر کوئی سیاسی جماعت عدالت میں نہیں آئی ،مارچ کے شروع تک انتظامات مکمل کئے جانے چاہیے پندرہ مارچ سے پندرہ مئی تک دو ماہ کے اندر مردم شماری مکمل کرنی چاہیے اس کیلئے دو ماہ بہت ہیں ۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ مردم شماری سے متعلق وزیراعظم کے دستخط سے حتمی تحریری تاریخ دیں ،جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہے ،مردم شماری ہوگی تونئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یہی اسٹیٹس کو ،سوٹ کرتا ہے۔ آئین کے مطابق مردم شماری نہ کرائی گئی تووزیراعظم عدالت کیکٹہرے میں ہوں گے۔جس طریقے سے آپ کہتے ہیں اس طرح تو مردم شماری نہیں ہوسکتی سوموٹو لئے کئی ماہ گزر گئے ہیں آئینی اداروں کا جو حشر ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے سندھ پبلک سروس کمیشن کو دیکھ لیں میرٹ کیخلاف بھرتیاں ہوئی ہیں عدالت نے ایکشن لیا تو سات افراد نے استعفے دے دیئے جبکہ چار ہزار سے زائد بھرتیاں ہوئی تھیں ان کا کیا جائے گا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں جو کچھ ہوا اس کا الزام ہمیں نہ دیں ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ اور پنجاب میں معاملات ایک جیسے ہیں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ آپ نے کہا کہ پندرہ مارچ سے مردم شماری کروانے کے حوالے سے تحریری طور پر جواب اور ٹائم فریم بنایا جائے کہ کب مردم شماری کی جائے گی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ٹھیک ہے وزیراعظم کہہ دیں کہ صوبے تعاون نہیں کررہے ، آج حکومت کہہ رہی ہے فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہو سکتی،کل الیکشن کمیشن بھی کہے گا کہ فوج کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے،لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں چل رہی ہیں،اس طرح تواپریل میں بھی مردم شماری شروع نہیں ہو سکے گی، مردم شماری نہیں کروانی تو وزیراعظم خود سپریم کورٹ آجائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت جو چاہے تاریخ دے دے مردم شماری کیلئے تیار ہیں جس پر عدالت نے حکومت کو پندرہ مارچ سے پندرہ مئی دو ہزار سترہ کے درمیان مردم شماری کرانے کی ہدایت کردی ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ وزیراعظم کو بلائیں یاپھر مردم شماری کی حتمی تاریخ دیں ، بتائیں وزیراعظم کب پیش ہوسکتے ہیں؟ تاریخ نہیں آئی تووزیراعظم وضاحت کے لیے خود سپریم کورٹ آئیں۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آئندہ سماعت پر وزیراعظم کے دستخط شدہ شیڈول پیش کریں ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت سات دسمبر تک ملتوی کردی