|

وقتِ اشاعت :   December 3 – 2016

و فا قی حکو مت عوام النا س کو بہتر سہو لیا ت کی فر اہمی کیلئے سالانہ30ارب پاکستان ریلو ے پر خر چ کر رہی ہے۔ وزیر ریلوے کی انتھک کو ششوں سے ریلوے نظام میں نہ صر ف بہتری آئی ہے بلکہ پا کستان ریلوے کی آمدنی میں اضا فہ بھی ہو ر ہا ہے۔ یادرہے کہ نو از شر یف کے پہلے دور حکومت 1990 میں پا کستان ریلو ے کو اسکریپ کا بڑا ذریعہ بنا دیا گیا تھااس وقت یلو ے ٹر یک غا ئب ہوئے یا چوری کئے گئے جن کا پتہ چل نہ سکا ۔اس بارپا کستان ریلو ے کو قومی ادارہ کو تسلیم کیا گیا ہے اور اب اس کی بحا لی تیز رفتاری سے جاری ہے لیکن سا ری ترقی صر ف لا ہور سے کر اچی یا پنڈ ی سے کر اچی تک مین لا ئن پر ہورہی ہے اس تر قی کے دوڑ میں بلوچستان کو نظر اندا زکیا گیا ہے۔ یہاں چلنے والی متعدد ٹر ینیں بند کر دی گئی ہیں بعض ٹرینوں کی سیکورٹی کے اخر اجات ریلوے کے مسا فر وں سے وصو ل کیے جارہے ہیں جو مسافروں کا استحصال ہے، ان کے ساتھ زیا دتی ہے جس کو فور ی طور پر بند ہو نا چا ہیے۔ دوسر ی اہم بات یہ ہے کہ کوئٹہ زاہد ان سیکشن پر زیادہ فور ی تو جہ دی جا ئے کیو نکہ یہ سیکشن بین الاقوامی ریلوے نظام کا حصہ بن چکا ہے خصوصاً اس وقت کے بعد جب حکو مت ایر ان نے زاہدان ، کرما ن ریلوے کو تعمیر کیا اوراس کو بین الا قوامی ریلوے نظام کا حصہ بنایا اس وقت سے کو ئٹہ ،زاہدان سیکشن کی بین الاقوامی اہمیت بڑ ھ گئی ہے اور یہ بھی بین الاقوامی یا علا قا ئی ریلوے نظام کا حصہ بن گیا ہے مگرافسوس ہے کہ ہماری ٹر ین ا ب بھی چھو ٹی پٹٹری پر رواں ہے اور اونٹ کے رفتا ر سے سفر کر رہی ہے ۔600کلو میٹر کا فاصلہ دنوں میں طے ہو رہا ہے گھنٹوں میں نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پر انا ریلو ے ٹر یک ہے اور علا قا ئی یا بین الا قوامی ریلوے ٹر یک سے مطا بقت نہیں رکھتا گزشتہ سا لوں جو سا مان ریلوے کے ذریعے ترکی بھیجا گیا تھا پور ا ملک خو ش تھا حکو مت نے اس پر بھی اپنے سیا سی ساکھ میں اضا فہ تو کر لیا تھا مگر اسی ریلو ے لا ئن کو جد ید بنا نے سے قا صر رہی۔۔۔ کیو ں؟ یہ معلوم نہیں بہر حا ل ایر ان ،ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ تجا رت کر نے کیلئے سب سے ز یاد ہ سستا ریلوے ٹرانسپورٹ کا نظام موجو د ہے ریلو ے ٹریک کو بہتر بنا کر اس نظام کا حصہ بن سکتے ہیں اب اسی ٹریک کی زیادہ اہمیت ہوگی کیو نکہ گو ادر کی بند رگاہ کا پہلا مر حلہ نہ صر ف مکمل ہو گیا ہے بلکہ فعال بھی ہو گیا ہے۔ چینی جہاز گو ادر سے کار گو لے کر افر یقہ روانہ ہو گیا اس سے قبل سنکیانگ اورماسکو سے ٹر ینیں تہران پہنچ چکی ہیں اور ان تمام مما لک کو ملا نے والی ریلو ے لا ئن مو جو د ہے بلکہ زا ہدان تک مو جو د ہے اگر ہم کو ئٹہ ، زاہدان ٹریک کو زیا دہ فعال اورمو ثر بنا ئیں اور گو ادر کو نو کنڈی جنکشن کے ساتھ منسلک کر دیں تو گوادر پورٹ دنیا کی بہت بڑی بند رگاہ ثا بت ہو گی جس سے پا کستان کو اربوں ڈالر کی سا لانہ آمدنی ہو سکتی ہے۔ نوکنڈی خام مال کے لحاظ سے بھی اہم ہے کر بوں ڈالر کی معد نیا ت اور دھا تیں نو کنڈی کے کر ب و جوار میں موجودہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوہا ،تانبہ اور دیگر صر ف ریل کے ذریعے ہی گو ادر چا ہ بہار کی گزرگاہ کو پہنچائی جا سکتی ہیں ۔جہاں پر جا پان اورکو ریادوبڑی بڑی اسٹیل ملز تعمیر کر رہے ہیں جس کی مجموعی پیداوار 40لاکھ ٹن سا لانہ ہوگی ۔اسی طرح دنیا کے ممالک سمندر کے ذریعے ما ل گوادر لا ئیں گے اورا ن کو ریل کے ذریعے وسطی ایشیائی مما لک روس اور چین بھی لے جایا جا سکتا ہے ۔اگر ہم بین الا قوامی تجارتی ضر وریات پوری کریں گے تواندازہً پاکستان 10ارب ڈالر سا لانہ گوادر سے کمائے گا۔ جتنی دیر کر یں گے اُتناہی پاکستان کانقصان ہوگا ۔