|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2016

پاکستان آج کل اپنی زیست کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہا ہے یہ بحران 1971ء سے زیادہ سنگین اور خطر ناک ہے. وجہ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو بحرانوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اگر ہم اپنے قرب و جوار کا جائزہ لیں تو ہم تنہا نظر آئیں گے۔ امریکا نے بھارت اور افغانستا کو پاکستان کے خلاف ایک محاذ پر متحد کردیا ہے ۔ دوسری طرف ہمارے سعودی عرب سے قریبی تعلقات کی وجہ سے ایران ہم کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے ۔ انقلاب ایران کے ابتدائی ایام میں ہم امریکا کے اتحادی رہے اور ہمارے حکمرانوں نے ایران کے انقلاب کے خلا ف اقدامات بھی اٹھائے ۔ صدام حسین کے خلاف جنگ میں ایران کی نہیں صدام حسین کی حمایت سعودی حکم نامے کے مطابق تھی ۔ اب بحران اتنا شدید تر ہوتا جارہا ہے اور اس کو حل کرنے کی ہمیں کم سے کم مدت ملی ہے جتنی جلدی ہم اپنی پالیسیاں درست کر یں گے اتنی ہی جلدی ہم اس بحران پر قابو پا سکیں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے جائز حقوق ان کو واپس دیا جائے ۔ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنانے کے بعد پاکستان میں وفاقیت کا تصور ختم ہوگیا۔ اقتدار پر نوکر شاہی نے قبضہ کر لیا اور آج تک نو کر شاہی کا قبضہ ہے جتنے عوام کے نمائندے ہیں دراصل وہ نوکر شاہی کے لئے عوامی رابطہ مہم چلانے والے اہلکار ہیں رہنما اور لیڈر نہیں ہیں۔ جب وفاقی حکومت کو مرکزی حکومت بنا دیا گیا تو کمزور صوبے تو بالکل بے جان ہوگئے ہیں اس لیے صوبائی خودمختاری کو نہ صرف حقیقی معنوں میں بحال کیا جائے بلکہ صوبوں یا وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دئیے جائیں اور نظریہ پاکستان یا قرار داد پاکستان کی روح کے مطابق وفاقی اکائیوں کو مکمل خودمختاری دی جائے ۔اوروفاق کے پاس کم سے کم اور بالکل ضروری اختیارات رہنے دئیے جائیں جو ملک کی سلامتی اور حکومت چلانے کے لئے ضروری ہو ۔ باقی تمام اختیارات صوبوں یا وفاقی اکائیوں کو دئیے جائیں۔ ہم یہاں پر محمود اچکزئی کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ پختونوں کو ایک متحدہ صوبہ یا وفاقی اکائی دیا جائے۔ اس میں تمام پختون علاقے ‘ فاٹا‘‘ کے پی کے اور افغانستان کے مفتوحہ علاقے جو بلوچستان میں ہیں ان کو افغان صوبے کا حصہ بنایا جائے۔ فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کی جائے اور وہاں کے عوام کو تمام جمہوری آئینی حقوق دئیے جائیں جن سے قیام پاکستان کے وقت سے ان کو محروم رکھا گیا ہے۔ اسی طرح تاریخی طورپر تمام بلوچ علاقوں کو بلوچستان میں شامل کیاجائے ۔ ان میں ڈیرہ غازی ‘ ڈیرہ اسماعیل خان کے بلوچ علاقے‘ پورا جیکب آباد ضلع اور اس کے گردونواح کے علاقوں کو بلوچستان میں شامل کیاجائے ۔ اسی طرح وفاقیت کے نظریہ کو فروغ دیاجائے اوروہ تمام وفاقی ادارے اور محکمے جو صوبوں میں کام کررہے ہیں ان سب کو صوبوں کے حوالے کیاجائے ۔ خصوصاً ایف آئی اے ‘ نیب اور دوسرے ادارے بلکہ بندر گاہوں اور جہاز رانی کے محکمے کو بھی صوبوں کے حوالے کیاجائے تاکہ بلوچ عوام میں یہ خوف ختم ہو کہ گوادر بند رگاہ کی وجہ سے پوری بلوچ قوم اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی ۔ کراچی کی مثال سامنے ہے دولاکھ کی آبادی والے شہرمیں دو کروڑ سے زائد افراد پہنچ گئے بلکہ ان سب کو بھارت ‘ بنگال ‘ برما‘ افغانستان سے دعوت دے کر کراچی لایا گیا تاکہ سندھیوں کا خاتمہ کیاجائے۔ کراچی تجربے کی بنیاد پر بلوچ عوام یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بندر گاہیں اور جہاز رانی کا محکمہ کسی بلوچ وزیر کو نہیں بلکہ حکومت بلوچستان کے حوالے کیاجائے جہاں پر اس وقت مسلم لیگ ن کی حکمرانی ہے ۔