|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا کہ اکیسویں صدی میں بلوچستان کے عوام انسانی بنیادی ضروریات سے محروم ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے بجٹ جو عوام کے خون پسینے سے بنائی جاتی ہے لیکن عوامی بدحالی، معاشتی تنگدستی اور سماجی مسائل سے دوچار ہے اور یہاں صوبائی اسمبلی کے ممبران بیرونی دوروں میں کروڑوں روپے ضائع کر رہے ہیں اگر اتنی بڑی رقم بلوچستان کے عوام کے فلاح وبہبود کیلئے رکھا جاتا تو اس کے بہتر تھا حکمرانوں کے بے حسی اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتی ہے کہ موجودہ حکمران عوام کے سماجی زندگیوں مثبت تبدیلی لانے میں ناکام ہو چکے ہیں گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں عوام غربت کے لکیر کے نیچے زندگی گزارنے میں اضافہ باعث تشویش ہے بلوچستان باوسائل سرزمین ہونے کے باوجود عوام کسمپرسی کی زندگی گزارہے ہیں اکیسویں صدی میں کوئٹہ جیسے دارالحکومت میں عوام کو پینے کے صاف تک میسر نہیں اسی طرح بلوچستان بھر میں اس وقت ہسپتال، سکولز، انفراسٹرکچر اور دیگر بنیادی ضروریات تک نہیں ہے جبکہ حکمران سب کچھ بہتر درستگی اور خوشحالی کے لفاظی دعوے کر تے ہوئے نہیں تھکتے بلوچستان کے حکمران کی نا اہلی اور کم صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اربوں روپے ان تین سالوں میں لیکس ہو چکے ہیں جبکہ بلوچستان آج مختلف وسائل کا سامنا کر رہاہے اگر اتنی بڑی رقم جو اربوں روپے تھے اس میں کم ازکم بلوچستان کے بنیادی مسائل کسی حد تک حل ہو سکتے تھے بیان میں کہا گیا کہ اسی طرح سے صحت اور تعلیم کاشعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے بلوچستان کے عوام پہلے ہی سے معاشرتی اور معاشی پریشانیوں سے دوچار ہے یہاں اب پانچویں اور ہشتم جماعت کو بھی بورڈ کے ذریعے امتحانات لینا بلکہ غریب طلباء وطالبات کیلئے مشکلات کا سبب بن رہا ہے دنیا میں کوشش کی جاتی ہے کہ تعلیم کے مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے بلوچستان میں تعلیمی شرح پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اب حکمرانوں کو چاہئے کہ خود تعلیمی اور امتحانات کے حوالے سے طلباء وطالبات کو مزید سہولیات میسر کر تے لیکن ان کو بورڈ کے ذریعے امتحانات لینا امتحان کے ذریعے بہتری نہیں آئیگی آج اس شعبے میں بھی جونیئر کو سینئر کا تقویت دینا تعلیمی نظام میں سیاسی مداخلت اب ناقابل برداشت عمل بنتا جا رہا ہے فوری طور پر تعلیم کوطلباء وطالبات کیلئے مفت اور انہیں سہولیات اور مثبت پالیسیاں ترتیب دی جائے جس سے علم وآگاہی کی شرح میں اضافہ ہو ایسانہ ہو کہ طلباء وطالبات مزید ذہنی کوفت مبتلا نہ کیا جائے اور تعلیم کے فروغ کیلئے مثبت پالیسیاں اپنائی جائے بیان کے آخر میں کہا گیا کہ2013 کے جعلی انتخابات کے جد جو حکمرانوں کو اقتدار پر براجمان کیا گیا ہے اب ان پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کم ازکم عوام کو ریلیف دینے کیلئے فوری اقدامات کریں اس کے برعکس اپنی نااہلی اور کوتائیوں کو تسلیم کریں کہ انہوں نے عوام کو ئی ریلیف دینے میں ناکام ہو چکے۔