پاکستان کے ایک بہت بڑے بنک نے انشورنس کمپنی کی طرف سے ایجنٹ کا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے ۔ اور اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو بنک کے افسران فون کرتے ہیں اور ان کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنے رقوم کا مخصوص کمپنی سے انشورنس کرائیں ۔ یہ فون کال بنک کی طرف سے آتی ہے اور چابکدستی سے اکاؤنٹ ہولڈر کو بے وقوف بنانے کے بعد ان کے اکاؤنٹ سے بنک دو ہزار روپے از خود صرف فون پر حامی بھرنے کے بعد نکال لیتی ہے ۔اس بڑے بنک کے لاکھوں اکاؤنٹ ہولڈر ہیں ۔ اس طرح سے یہ انشورنس کمپنی کی معاونت میں اربوں روپے کما رہے ہیں ’ جو ہمارے مطابق نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اکاؤنٹ ہولڈر زکے رقم پر دن دہاڑے ڈاکہ ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اسٹیٹ بنک نے تجارتی بنکوں کو یہ کام بھی سونپ دیا ہے کہ وہ انشورنس کا کاروبار انشورنس کمپنی سے مل کر کریں۔ شاید قوانین ایسے کام کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ یہ اکاؤنٹ ہولڈر اور انشورنس کمپنی کے درمیان کا معاملہ ہے کہ وہ دونوں براہ راست کسی قسم کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس میں بنک خصوصاً تجارتی بنک ملوث نہیں ہوتا۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ بنک کے نمبر سے اکاؤنٹ ہولڈر کو فون آتا ہے ۔ چرب زبان افسر پہلے تو اکاؤنٹ ہولڈر کو ملک میں امن وامان کی صورت حال سے خوفزدہ کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اگر آپ بنک سے یا اے ٹی ایم مشین سے رقم نکال کر جارہے ہوں تو ڈاکو آپ کی رقم لوٹ سکتے ہیں ۔ اس لیے آپ کے لئے بنک نے ایک انشورنس کمپنی کے تعاون یہ اسکیم شروع کی ہے ۔ اور انشورنس کمپنی آپ کو آپ کے لوٹے ہوئے رقم کے عوض صرف 50,000پچاس ہزار روپے ادا کرے گی ۔ فون پر ہاں کی صورت میں آپ کے اکاؤنٹ سے دو ہزار روپے کی خطیر رقم کاٹ لی جاتی ہے اور فوراً یہ رقم آپ کے اکاؤنٹ سے بنک نکال لیتی ہے ۔ پہلے تو اسٹیٹ بنک اس تجارتی بنک کے خلاف کارروائی کرے جو اس قسم کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہے ۔ اگر کسی انشورنس کمپنی نے اپنا کوئی پروڈکٹ فروخت کرنا ہے ، وہ براہ راست صارف کے ساتھ رابطہ کرے اور معاملات طے کرے ۔ بنک کیوں اس فراڈ یا لوٹ مار میں شریک ہے ۔بنک کیوں براہ راست اکاؤنٹ ہولڈر کے اکاؤنٹ سے رقم نکال لیتی ہے یہ بھی بنک کی طرف سے ایک قسم کا ڈرامہ ہے ۔ اصولی طورپر یہ تمام کارروائی براہ راست ہوں اور صارفین کو واضح طورپر اوریقینی طورپر معلوم ہو کہ وہ کس چیز کے لیے اپنے دو ہزار روپے خرچ کررہا ہے ۔ اس میں زیادہ تر بوڑھے اور بزرگ شہری فراڈ کا نشانہ بن رہے ہیں پہلے تو ان کو پوری بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ پھر ملک میں امن و امان کی صورت حال اتنی بھی خراب نہیں جو بنک کا چرب زبان کالر بیان کرتا ہے ۔ سالوں میں ایسے واردات ایک درجن سے نہیں ہوتے کہ بنک سے رقم نکالنے کے بعد جرائم پیشہ افراد نے چھین لیے ہوں۔ کوئٹہ میں پورے سال میں صرف چند ایک واقعات ہوئے ہوں گے جبکہ بنک کا چرب زبان افسر لاکھوں اکاؤنٹ ہولڈرز کو خوفزدہ کرتا پھرتا ہے کہ آپ کی رقم لوٹی بھی جا سکتی ہے ۔ لہذا بنک اور انشورنس کمپنی کے مشترکہ فنڈ میں آپ ا بھی دو ہزار جمع کرائیں ۔ اسٹیٹ بنک اور وزیراعلیٰ بلوچستان اس کا نوٹس لیں اور بنک کا یہ فراڈ بند کرائے تاکہ لوگوں کے کروڑوں روپے فراڈ کے ذریعے بنک اور انشورنس کمپنی تک نہ پہنچیں ۔