|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2016

ملکی حالات سے بے خبر نام نہاد دانشور سالوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں مردم شماری کرائی جائے ۔ مردم شماری کرانے پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو ۔ اس کی اہمیت اپنی جگہ کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے مردم شماری ضروری ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ منصوبہ بندی پر زبانی جمع خرچ ہوا منصوبے حکمرانوں کی مرضی سے بنائے گئے ، مفاد عامہ میں قطعاً نہیں بنائے گئے ۔ حکمرانوں کی سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنائے گئے۔ ہم حکمرانوں اور نام نہاد دانشوروں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا آدھا حصہ ہے یہاں منصوبہ بندی کہاں ہے۔ بلوچستان کا پانچ سالہ ،دس سالہ منصوبہ کہا ں ہے ۔ وفاقی بجٹ میں سالانہ جو بھی رقم مختص ہوتی ہے اس کا آدھا حصہ بھی بلوچستان میں گزشتہ ستر سالوں میں خرچ نہیں ہوا۔ بلوچستان کا ہر بڑامنصوبہ تیس سالوں سے کم میں مکمل نہیں ہوا۔ ایک یوتھ ہاسٹل وفاقی حکومت نے تعمیر کی اس پر کل لاگت صرف آٹھ کروڑ روپے تھی اس کو بھی بارہ سالوں میں مکمل کیا گیا ۔ یعنی اس چھوٹے سے منصوبے پر بھی سالانہ صرف چند لاکھ روپے خرچ کیے گئے ۔ ابھی کچھی کینال گزشتہ ربع صدی سے زیر تعمیر ہے اس کاپہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہو ا۔ کیونکہ کچھی کینال کے ذریعے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک پانی ملے گا نہ کنال تعمیر ہوگی نہ ہی بلوچستان کو دس ہزار کیوسک پانی ملے گا ،یہ ہے منصوبہ بندی کا حال ‘ خصوصاً ملک کے پور ے نصف حصے کے لیے ۔ سیاسی طورپر جنرل پرویزمشرف نے 2002ء سے جان بوجھ کر حالات خراب کیے ۔ بھارت سے فرصت ملنے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے بلوچستان کا رخ کر لیا ان کو غصہ یہ تھا کہ بلوچ رہنماء ان کی چاپلوسی کیوں نہیں کرتے ،ان کے پاس کیوں نہیں آتے ۔ ان میں عطاء اللہ مینگل ‘ نواب بگٹی اور نواب مری شامل تھے۔ ان سب نے کبھی حکمرانی کی تمنا بھی نہیں کی اور نہ ہی حکمرانوں سے کسی مراعات کے خواہاں رہے ۔ وہ سب خاموش اپنے گھروں میں بیٹھے رہے صرف نواب بگٹی نے ڈاکٹر شازیہ خالدکی بے حرمتی کے خلاف روایتی احتجاج کیا۔ ان کا یہ کہنا تھاکہ سندھ کی بیٹی بلوچوں کے پناہ میں تھی حکمرانوں نے ان کی بے حرمتی کی ۔ صرف اس احتجاج کے پاداش میں ان کے گھر پر بمباری کی گئی ۔ شیلنگ کی گئی جس میں ستر سے زائد معصوم اور نہتے لوگ ہلاک ہوئے ان میں اکثریت اقلیتی برادری کی تھی جو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بگٹی تمندار کے فصیل میں رہتے تھے اس کے بعد سے بلوچستان کے حالات خراب ہوئے اور آج بھی ہیں آئے دن بلوچستان بھر سے ہلاکتوں کی خبریں ہر طرف سے آرہی ہیں ۔ان حالات میں کوئی بھی سرکاری ملازم مردم شماری کی ذمہ داریاں سرانجام نہیں دے سکتا۔ کوئی بھی ملازم اپنی زندگی کا رسک نہیں لے سکتا۔ پھر حکومت اس بات سے سیاسی وجوہات کی بنا ء پر انکاری ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں ۔ یہ معاملہ صرف مری بگٹی قبائل یا ان کے قرب و جوار کا نہیں رہا ۔ گھر گھر سرچ آپریشن کی وجہ سے مکران اور پوری کیچ وادی سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ، اس کے ساتھ آواران اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بھی بڑی تعداد نے اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ہے ۔ بلوچستان بھر سے لوگوں کی ہلاکتوں کی خبریں سرکاری طورپر شائع کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں بلوچستان میں مردم شماری کا حکم دینا کہاں کا انصاف ہے ۔ بے دخل خاندانوں کے علاوہ لاکھوں افغان بلوچستان میں موجود ہیں ان کی موجودگی میں بلوچ سیاسی اکابرین کے تحفظات جائز ہیں حکومت ان کو واپس افغانستان روانہ کرے یا ان سب کو مہاجر کیمپوں میں رکھا جائے ۔ آبادی سے ان سب کو نکالا جائے اور اس کے بعد بلوچستان میں مردم شماری کی جائے ۔ہم متعلقہ حکام سے یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ اگر وہ بضد ہیں کہ ان حالات میں بھی مردم شماری ہو تو مہربانی کرکے بلوچستان کو فی الحال اس مردم شماری میں شامل نہ کریں ۔