بلوچستان میں بھی محدود پیمانے پر کرپشن کے خلاف عالمی دن منایا گیا ۔ اس میں کرپشن کے خلاف آگاہی کے طور پر اخبارات نے ضمیمے شائع کیے ۔ بلوچستان میں تین اہم ترین ادارے کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف کام کررہے ہیں ان میں نیب ‘ ایف آئی اے اور صوبائی ادارہ برائے انٹی کرپشن شامل ہے ان میں صرف نیب کا ادارہ سرگرم عمل نظر آتا ہے ۔ ایف آئی اے اورصوبائی ادارہ برائے انسداد بد عنوانی کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے ۔ نیب نے بڑے بڑے مقدمات قائم کیے ہیں ۔ ان میں سابق سیکرٹری خزانہ کے گھر سے خزانے کی بر آمدگی بھی شامل ہے ۔ نیب سے متعلق بعض لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ نیب سیاسی وجوہات کی بناء پر اس مقدمے کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ نہیں کررہا ۔ یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ نیب اس مقدمہ میں تمام تر تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرے کہ سیکرٹری خزانے کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی آقاؤں کا کیا کردار تھا ۔ رقم فراہمی کے احکامات تو وزیراعلیٰ اور متعلقہ محکمہ کاوزیر دیتے ہیں ۔ صرف سیکرٹری خزانہ کو بنیادی ملزم بنانے سے ان وزراء پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی انسداد بدعنوانی کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے ۔ نیب یہ بتائے کہ ان وزراء کی ذمہ داری کس حد تک تھی اورکہاں انہوں نے حدود کو پار کیا ۔ بہر حال نیب کی اپنی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے اور اسکو عوام کے سامنے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ اس کی تمام کارروائیاں شفافیت پر مبنی ہیں ’ اس میں ذاتی پسند نا پسند کا سوال نہیں اُٹھتا۔ بنیادی طورپر ہم اس بات کے حق میں ہیں کہ یہ سارا کام صوبائی حکومت کرے ۔نیب اور ایف آئی اے کو وفاقی دارالحکومت تک محدود کردیا جائے کیونکہ یہ صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے کہ وفاقی ادارے صوبائی معاملات میں کارروائی کریں۔ بنیادی طورپر اینٹی کرپشن کارروائی کا تعلق امن عامہ سے بنتا ہے اور یہ صوبائی معاملہ ہے ۔ وفاقی حکومت نے ڈنڈے کے زور پر یہ تمام اختیارات ہتھیا لیے ہیں جو وفاقیت کے اصل روح کے منافی ہے ۔ بلوچستان کی حکومت کو زیادہ با اختیار اینٹی کرپشن کا ادارہ قائم کرنا چائیے جو نیب اور ایف آئی اے کو بلوچستان کے معاملات سے آئینی اور قانونی طوررپر دور رکھ سکے۔کیونکہ ہر گزر تے دن کے ساتھ مرکزی حکومت صوبائی اختیارات پر اپنے حملوں میں تیزی لا رہی ہے۔ اگر پولیس فورس کو زیادہ مضبوط اور بلوچستان کانسٹیبلری کو زیادہ فعال بنایا گیا ہوتا تو صوبے میں ایف سی کو امداد کے لئے طلب کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ پرویزمشرف نے ابتدائی سالوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ مرحوم جام یوسف پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ بلوچستان میں وفاقی اداروں کو امداد کے لئے طلب کریں ’ یہ مطالبہ حکومت بلوچستان پر تھوپا گیا تھا اس لیے امن عامہ کا محکمہ عمومی طورپر وفاق کو سپرد ہوگیا ۔ پرویزمشرف نے نیب قائم کیا اور تمام کرپٹ عناصر پر اس ادارے کے ذریعے دباؤ ڈالا کہ وہ حکمران پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ جس کے بعدتاریخی مثال بن گئی کہ مسلم لیگ نے وفاق اور چاروں صوبوں میں وزارتیں بنائیں ۔ یہ ان کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ نیب کا کارنامہ تھا ۔ جس کے بعد بعض کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائیاں بند کردی گئیں ’ بلکہ بعض سابق سزا یافتہ وزراء کو جیل سے نکالا گیا اور ان کے خلاف مقدمات بھی ختم کردئیے گئے ۔ نیب اور ایف آئی اے میں مقامی عناصر خال خال نظر آتے ہیں زیادہ تر افسران دوسرے صوبوں سے آئے ہیں ۔ ان کا بلوچستان سے معلومات سطحی ہیں ۔وہ یہاں کے حالات سے واقف نہیں ۔ اس لیے ان کی کارروائی زیادہ موثر نظر نہیں آتی نہ ہی مقامی لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں اس لیے ان کے پاس معلومات مکمل نہیں ہوتیں اور یہ اس مہم میں موثر ثابت نہیں ہوتے۔