کوئٹہ : لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں ڈاکٹر دین محمد بلوچ، شبیر بلوچ ، زاہد بلوچ، اور رمضان بلوچ کے لواحقین نے آج کراچی پریس کلب میں اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے حوالے پریس کانفرنس منعقد کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 22جون 2009کو اغواء ہونے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ نے کہا کہ آج اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس روز دنیا بھر میں منعقد تقریبات میں یہ عہد کیا جا تا ہے کہ دنیا بھر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا زمہ دار ریاستیں اور حکومتیں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف رسمی کوششیں اور اخباری بیانات تک محدود عہد و پیمان ہیں۔ کیوں کہ ہم کئی سالوں سے انسانی حقوق کی عالمی دن کی مناسبت سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے اپیلیں کرچکے ہیں، عدالتوں کے دروازے کٹکٹھائے ہیں، دسویں بار سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے چکر لگانے کے باوجود ہماری کوئی سنوائی نہیں ہوئی ہے۔ سات سالوں سے پریس کلبوں اور عدالتوں کے چکر لگانے کے باوجود بھی مجھے یہ تک نہیں بتایا جارہا ہے کہ میری والد کہاں اور کس حال میں ہوں گے اور پریشانی کی بات ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی فہرست گھٹنے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ شبیر کی خاندان نے اسی پریس کلب کے باہر تین دنوں تک احتجاجی کیمپ لگائے رکھا، ہائی کورٹ میں کیس درج کیا، لیکن ابھی تک شبیر کی زندگی اور سلامتی کے حوالے سے کسی کو کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے ۔8جون 2009کو مستونگ سے اغواء ہونے والے زاکر مجید بلوچ بھی عدالتی احکامات کے باوجود تاحال فورسز کی حراست میں موجود ہیں۔ فورسز ان لاپتہ افراد کے خاندانوں کو بھی ان کی زندگی و سلامتی کے حوالے سے بے خبر رکھ رہے ہیں۔ سمی بلوچ نے کہا کہ ہماری تعلیم پچھلے سات سالوں سے متاثر ہے۔ گھر میں ایک مستقل پریشانی کی ماحول میں نہ ہم سکون سے پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔لاپتہ افراد کے لاشوں کی برآمدگی کی خبریں ہم سمیت تمام لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں۔