کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن کرانا ممکن نہیں تو بلوچستان میں مردم شماری کیسے کرائی جائے گی ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کی موجودگی بلوچوں کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آبادکاری ، 60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز کے اجراء تک مردم شماری قابل قبول نہیں اگر حکمران ان تمام خدشات و تحفظات کے باوجود مردم شماری کرانا چاہتے ہیں تو یہ بلوچوں کو مزید محرومی و محکومیت کی جانب دھکیل دے گا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کو مردم شماری کا حصہ بنایا جائے ریاستی ادارے خود بارہا کہہ چکے ہیں کہ افغان خاندانوں سے بلوچستان سے ملکی شہریت حاصل کی خیبرپختونخواء ، پنجاب سے مہاجرین کے انخلاء کے باوجود بلوچستان سے ایک فیصد مہاجرین واپس نہیں گئے بلکہ بلاک شدہ شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے حکمرانوں نے ایم این اے ، سینیٹرز ، ایم پی ایز کو اختیار دیا کہ وہ بلاک شناختی کارڈز کی تصدیق کر کے دوبارہ جاری کئے جائیں بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کیا جائے بیان میں کہا گیا کہ کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، سوئی ، آواران ، پنجگور ، تربت سمیت جھالاوان کے بیشتر علاقوں میں بلوچ دیگر علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں تو وسیع بلوچ سرزمین پر مردم شماری کا انعقاد کیسے ممکن ہو سکے گا مارچ میں مردم شماری کرانا ایسا عمل ہو گا جس طرح 2013ء کے جعلی انتخابات کرائے گئے اگر حکمران چاہتے ہیں کہ بلوچوں کے زخمیوں پر مرہم رکھیں تو اہم مسائل کے حل کے بعدمردم شماری کرائی جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاق مردم شماری پر بلوچستان کے خدشات و تحفظات کو دور کرے اگر ایسا نہ کیا گیا تو مردم شماری بلوچ دشمن اقدام تصور کیا جائے گا بلاک شدہ شناختی کارڈز کی تصدیق کا عمل ایم این اے ، سینیٹرز سے کرانے کا مقصد افغان مہاجرین کو ملکی شہریت دینا ہے ایسے وقت میں جب مردم شماری کی جا رہی ہے تصدیق کا اختیار دینا قابل مذمت ہے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بلوچستان سے شہریت دینے کا مقصد بلوچ دشمن اقدام ہے متوقع مردم شماری بھی 2013ء کے انتخابات کی طرح غیر شفاف ہونگے موجودہ حالات میں مردم شماری قابل قبول نہیں ہمیشہ بلوچوں کے اعداد تعداد کو کم کرنے کیلئے آمر و سول حکمرانوں نے بیورو کریسی کی ملی بھگت سے اسے کم ظاہر کرنے کی کوشش کی وسیع و عریض بلوچ وطن اور بلوچ وسائل مال غنیمت نہیں کہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کو یہاں آباد کیا جائے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری قبول نہیں کریں گے حکمرانوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ بلوچوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کر دیں گے چند اضلاع کی آبادی کا بلوچستان کے وسائل میں برابری کا مطالبہ بے بنیاد ہے پانچ ڈویژنز پر مشتمل بلوچ آبادی کے حق کے دستبردار نہیں بلوچ وطن کے ساحل وسائل پر چالیس لاکھ افغان مہاجرین کے ذریعے قبضہ درست اقدام نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے قوانین ، بین الاقوامی مسلمہ اصول اور ملکی آئین کے تحت کوئی یہ جواز نہیں پیش کر سکتا کہ افغان مہاجرین کو ملک کا شہری تصور کیا جائے مہاجرین کے میعاد میں توسیع کی بجائے انہیں باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے بلوچوں کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آبادکاری اور 60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز جاری کرنے کے بعد مردم شماری قابل قبول ہوں گے بلوچ باشعور قوم ہونے کے ناطے یہ حق رکھتی ہے کہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے قومی و جمہوری انداز میں جدوجہد کرتی رہے اور قومی مفادات اجتماعی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ افغان مہاجرین اور مردم شماری کے حوالے سے اپنے خدشات و تحفظات پر آواز بلند کرتی رہے گی افغان مہاجرین جو 1979ء افغان ثور انقلاب کے بعد بلوچستان ، خیبرپختونخواء اور ملک کے دیگر علاقوں میں لاکھوں خاندان پاکستان آئے اس دور میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں کیمپوں تک محدود کرنے کی بجائے مسلسل آزادی دے رکھی تھی کہیں بھی ملک میں رہیں اور آزادانہ طریقے سے نقل و حرکت کریں ان پر کوئی پابندی نہیں تھی اسی وجہ سے انہوں نے کاروبار ، زمینوں کی خرید و فروخت بالخصوص بلوچستان کی معاشی منڈی پر قابض ہوئے اور آج تک ہماری اکانومی پر بوجھ ہیں آج جو مسائل حکمرانوں اور ریاست کو درپیش ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی پر جاتی ہے جنہوں نے مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین کے برخلاف اقدامات کئے اور انہیں کیمپوں تک محدود کرنے کی بجائے ان کی نقل و حرکت پر پابندی نہ لگائی جس سے عوام اور ارباب و اختیار پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں انہوں نے 1979ء کے بعد پیسوں اور سیاسی دباؤ کے تحت ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کو شناختی کارڈز ، دیگر سرکاری دستاویزات حاصل کئے یہاں تک کے طالبان کے سربراہ ملا منصور اختر کا شناختی کارڈز بھی بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ سے جاری ہوا ہے اسی طرح افغانستان کے دیگر ارباب و اختیار کے پاس بھی شناختی کارڈز موجود ہیں بلوچستان میں نادرا کی جانب سے لاکھوں کی تعداد میں شناختی کارڈز جاری کئے گئے اب جبکہ نادرا کے 14سے زائد اہلکار معطل ہیں اکثر کو سزائیں بھی ہوئی ہیں اور اب بہت سے معاملات سامنے آئے ہمارے موقف پر مہر و ثبت ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے جو موقف اپنائی تھی آج وہ درست ثابت ہو رہی ہے ملک کے آئین ، بین الاقوامی مسلمہ اصولوں یا شہری قوانین کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کسی طور پر یہ جواز نہیں دیا جاسکتا کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین کو شناختی کارڈز اور دیگر دستاویزات جاری کئے جائیں اور انہیں بلوچستان میں رہنے دیا جائے اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے سوچیں تو اس وقت سعودی عرب مسلمانوں کا مرکز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن وہاں بھی مہاجرین تو درکنار کسی کو آج تک شہریت نہیں دی گئی اسی طرح دیگر مسلم ممالک بھی ہیں بلوچوں نے 35سال مہمان نوازی کا رواداری کے ساتھ حق ادا کیا انہوں نے بلوچستان بھر میں مختلف شعبوں میں سکون ، اطمینان اور عزت سے کاروبار سے منسلک ہوتے رہے ا ب مزید بلوچستان کے بلوچ اور بلوچستانی عوام ان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اب جب افغانستان میں امن ہے تو پارٹی ارباب و اختیار اور حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتی ہے کہ خیبرپختونخواء سے جب ان کے انخلاء کو یقینی بنایا جا رہا ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی س افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے وطن بھیجنے کے اقدامات کریں کیونکہ پارٹی سمجھتی ہے کہ ان کی وجہ سے بلوچستان کی معاشی منڈی پر ان کا غلبہ ہے ، کلاشنکوف کلچر ، مذہبی جنونیت جیسے مسائل ان کی وجہ سے ہیں ان کی روک تھام کیلئے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ اب مزید توسیع دینے کی بجائے واپسی کیلئے اقدامات کئے جاتے حکمران اس بات کا واویلا کرتے نہیں تھکتے کہ متوقع مردم شماری 2017ء میں ہوگی اب جب حکمران اور ریاستی ادارے خود کہہ رہے ہیں کہ ساڑھے پانچ ؒ لاکھ خاندان غیر قانونی طریقے سے بلوچستان میں آباد ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ غیر ملکیوں کی موجودگی میں مردم شماری صاف شفاف ہوگی جنرل مشرف کی آمرانہ اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچ خاندانوں اپنے گھر سے ہجرت کر چکے ہیں ان کی دوبارہ آبادکاری اور 60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز جاری کئے بغیر مردم شماری کرانا بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے احساس محرومی میں اضافہ ہے ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی گہری سازش گردانا جائے تو بے جا نہ ہو گانواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی گئی جس کی وجہ سے بلوچستان پہلے ہی سے ناانصافیوں اور محرومیوں کا شکار ہیں اب جبکہ مردم شماری متوقع ہے حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 2011ء میں خانہ شماری کے موقع پر سیکرٹری شماریات نے بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا تھا کہ افغان مہاجرین کیوجہ سے بلوچستان کے پشتون علاقوں کی آبادی میں 4سے 5سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے خانہ شماری کو مسترد کر دیا تھا اب افغان مہاجرین کے تمام شناختی کارڈز کی منسوخی ، انتخابی فہرستوں سے ناموں کو نکالا جائے ان کی موجودگی میں مردم شماری ناقابل قبول ہے ۔