|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2016

سیاستدان وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے تجزیئے درست ہوں اور وہ حالات کا حقیقت پسندانہ مشاہدہ کریں اور اس کے مطابق اپنی یا اپنی پارٹی کی پالیسیاں واضح کریں۔ عمران خان نیازی وہ سیاستدان ہیں جن کو اپنے ارد گرد کے حالات کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ان کو ہر دم میلہ لگانے کا شوق واضح طور پر دِکھتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ یاپارلیمان سے متعلق کیا کچھ انہوں نے نہیں کہا۔ اور وہ اب دوبارہ پارلیمان میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں پر وہ وزیراعظم کو پارلیمان کے اندر جھوٹا ثابت کریں گے۔ اس کے لئے وہ اسمبلی کے فلور پر یہ معاملہ اٹھائیں گے کہ وزیراعظم نے پارلیمان کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور اب اس بات پر ان کا احتساب ہونا چاہئے۔ ہم حکمرانوں کے کڑے احتساب کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ حکمرانوں کے احتساب کے بغیر اچھی حکمرانی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اچھی حکمرانی اور ملک کی تیز رفتار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کا سخت احتساب ہو مگر اس کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا ضروری ہے، حزب اختلاف کی پارٹیوں کو یکجا کرنا ضرور ی ہے۔ عمران خان نیازی اس معاملے میں ہمیشہ اکیلے نظر آئے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے ہمیشہ سولو فلائٹ کی اور آخر کار ناکام رہے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کو اپنے ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے ان کو ہر بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور شرمندگی اٹھانی پڑی۔ اب ایک اور موقع آیا ہے کہ حزب اختلاف کی حقیقی پارٹیاں متحد ہوکر تحریک چلائیں یہ تحریک پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر چلائی جائے اور وزیراعظم کو مجبور کیا جائے کہ وہ پارلیمان میں بیٹھ کر اپنے خلاف تمام تقاریر کو سنیں اور یہ ثابت کریں کہ وہ جمہوریت اور جمہوری احتساب پر یقین رکھتے ہیں۔ ملک کے سینکڑوں مسائل کا حل اس میں موجود ہے کہ وزیراعظم پارلیمان کا مقابلہ کریں اور یہ حوصلہ پیدا کریں کہ وہ اپنے خلاف تقاریر سننے کی ہمت رکھتے ہیں۔ پارلیمان میں بعض ایسے نکات اٹھائے جاتے ہیں جس کا وزیراعظم کوئی تصور نہیں کرسکتا۔پھر ان کو موقع ملتا ہے کہ وہ ان معاملا ت پر احکامات صادر کریں جس سے عوام الناس کے مسائل حل کرنا شروع ہوتے ہیں ۔ مگر نواز شریف کا طرز حکمرانی بادشاہت سے مشابہت رکھتا ہے۔ شاید وہ سعودی خاندان کی طرز حکمرانی کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اس لئے وہ عدلیہ، مقننہ کو حقیر سمجھتے ہیں پارلیمان کا رخ ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ کابینہ کا اجلاس بھی نہیں بلاتے۔ صرف چند مخصوص افراد سے مشورہ کرکے امور مملکت چلاتے ہیں اسی وجہ سے چھوٹے صوبوں کو شدید قسم کی شکایات ہیں۔ صوبائی حکمرانوں کو ذاتی نوکر سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس آئین کے تحت نہیں بلاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وفاقی نظام حکومت سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ صرف ذاتی حکمرانی یا بادشاہت کے شوقین ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کررہے ہیں۔ آئندہ اجلاس خصوصاً قومی اسمبلی کا زیادہ اہم ہوگا جس میں پی ٹی آئی بھرپور انداز میں نہ صرف شرکت کرے گی بلکہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر پارلیمان کی بالادستی کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کا مقصد وزیراعظم کو بادشاہت سے نکال کر پارلیمان کے تابع بنانا ہے۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کس حد تک کامیاب ہونگی یہ ابھی قبل از وقت ہے۔ بہر حال حکومت کی مشکلات میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ پانامہ لیکس میں اب کسی کو دلچسپی نہیں اس کو استعمال کرکے حکومت اور وزیراعظم پر تابڑ توڑ حملے جاری رہیں گے اور اس میں پی ٹی آئی اور عمران خان پیش پیش ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو کسی حد تک راحت پہنچائی ہے مگر مخالف پارٹیاں اب عوام کا رخ کریں گی اور وزیراعظم کے لئے زمین مزید تنگ ہوجائے گی۔