کل سقوط ڈھاکہ کی برسی منائی گئی۔ اس دن یعنی 16 دسمبر1971 کوپاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کر آزاد ریاست بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا۔ پاکستانیوں کے لیے یہ صدمے کا دن تھا کہ ان کا ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک حصہ پاکستان سے الگ ہوگیا۔ دنیا بھر نے نئی آزاد بنگلہ دیش ریاست کو دنوں میں تسلیم کرلیا۔ پاکستان نے بھی کچھ عرصہ بعد بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔ بھارت سے مذاکرات کے بعد شملہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کی رو سے 93ہزار جنگی قیدیوں جن میں سے 60ہزار شہری، پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار تھے، ان کو رہا کیا گیا۔ ان میں 30ہزار کے لگ بھگ فوجی تھے۔ دنیا بھر میں شملہ معاہدے کو پذیرائی ملی اور بھارت اور پاکستان کے تعلقات معمول پر آنے لگے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ملک کے فوجی جنتا کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان سے حکمرانی ناممکن ہے۔ یہ اس وقت ثابت ہوگیا تھا جب بنگالیوں نے ایوب خان کی صدارتی یا شخصی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب بنگلہ قیادت نے یہ اعتراض اٹھایا کہ 1965کے جنگ کے دوران پاکستان نے بنگال کا موثر دفاع نہیں کیا تھا۔ بھارتی چاہتے تو1965 کی جنگ میں آسانی سے بنگلہ دیش پر فوجی قبضہ کرلیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کے رہنما مسلم لیگی رہ چکے تھے اور پاکستان کی آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے چکے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنے آپ کو محب وطن پاکستانی سمجھتے تھے اور آزادی کی تحریک میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا تھا اس لئے آخر وقت تک وہ پاکستانی رہے اور شدت پسند بنگالی قوم پرستوں کے دباؤ میں کبھی نہیں آئے اور انہوں نے پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنے سیاسی، قومی اور جمہوری حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری جانب یہ بات یقین کے ساتھ کہی جارہی تھی کہ مغربی پاکستان کا مقتدر طبقہ کسی طرح بھی بنگال کو اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہ تھا اس لئے انہوں نے دونوں صوبوں کے درمیان مساوات کو ختم کردیا اور مغربی پاکستان کے تاریخی صوبے بحال کئے اور انتخابات کا اعلان کیا۔ مقتدرہ نے کھلم کھلا مغربی پاکستان میں بھٹو اور اس کی پی پی پی حکومت کی حمایت کی اور اس کو فنڈ اور دوسری سہولیات دیں بلکہ پوری انتظامیہ پی پی پی کی حمایت میں تھا۔ پورے قومی پریس پر بھٹو کا قبضہ کروایا گیا۔ پریس میں بھٹو مخالفین کو ڈرایا دھمکایا گیا تاکہ مغربی پاکستان میں وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے۔ جبکہ بنگال میں عوامی لیگ کو کلی چھٹی دی گئی تاکہ بنگال کی تمام سیٹیں عوامی لیگ جیت جائے شاید اس میں دنیا بھر کے ممالک خصوصاً امریکہ اور بھارت بھی شامل تھے اور وہ چاہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمان سب سے بڑے نمائندہ بن کر ابھریں۔ یہی ہوا پورے بنگال کے 169قومی اسمبلی کی سیٹوں میں سے 167سیٹیں عوام لیگ نے جیت لیں۔ صرف دو سیٹیں دوسروں کے حصے میں آئیں۔ ان میں ایک نوالامین بھی تھے جو بعد میں وزیراعظم بنائے گئے۔ مغربی پاکستان میں فوجی جنتا اور مقتدرہ کسی صورت میں بھی بنگال کو پاکستان کا حصہ قطعاً نہیں چاہتے تھے کیونکہ بنگالیوں کا مطالبہ یہ تھا کہ پوری ریاستی مشینری ان کے کنٹرول میں ہو۔ ان کو آبادی کی بنیاد پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں اسی مناسبت سے نمائندگی دی جائے۔ یعنی بجٹ میں 50فیصد فوج اور دوسرے اداروں میں بھی 50فیصد جو مغربی پاکستان کے حکمرانوں یا مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہ تھا اس لیے واحد راستہ یہ تھا کہ ہر قیمت پر بنگال کو جلد سے جلد الگ کیا جائے۔ شاید اتنے بڑے پیمانے پر کشت و خون کا واحد مقصد یہی تھا کہ صلح کے امکانات یکسر ختم کئے جائیں۔ ہم پاکستان کے تمام وسائل بنگالیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سابق چیف جسٹس جسٹس منیر نے اپنی کتاب میں بھی یہی کچھ لکھا ہے کہ وہ ایک ایلچی کی حیثیت سے بنگالی رہنماؤں سے ملے تھے اور ان کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ آپ پاکستان سے الگ ہوجائیں تو ان کا جواب تھا کہ ہم اکثریت میں ہیں۔ آپ اقلیت والے پاکستان سے الگ ہوجائیں ہم اصلی پاکستانی ہیں۔