|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2016

بلوچستان میں انتظامی بندوبست میں مکران کو ہمیشہ الگ تھلگ رکھا گیا۔کبھی بھی اور کسی دور میں یہ کوششیں نہیں ہوئیں کہ مکران کو سڑکوں کے ذریعے صوبے اور ملک کے بقیہ حصوں سے ملایا جائے۔ پورے 70سالوں کی سیاسی تاریخ میں بلوچ قوم پرستوں کی حکومتیں صرف چند ماہ تک محدود رہیں۔ ان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت صرف 9ماہ، نواب بگٹی کی حکومت 30ماہ اور سردار اختر مینگل کی حکومت 18ماہ تک قائم رہی۔ باقی تمام وقت ریاستی اداروں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے نام سے حکومت کرتے رہے، اس لئے مکران کو اہمیت نہیں دی گئی۔ سیاست کے علاوہ کئی اور بھی وجوہات ہوں گی جو مکران کو ریاستی نظام سے الگ تھلگ رکھا گیا۔ انسر جنسی سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی پروگرام میں کوئٹہ۔گوادر کی سڑک شامل تھی۔ اس کو ریکارڈ 2سال تین ماہ کی مدت میں تعمیر کیا گیا۔ آرسی ڈی ہائی وے گزشتہ 65سالوں میں مکمل ہوا خضدار۔شہداد کوٹ روڈ گزشتہ 20سالوں سے زیر تعمیر ہے۔ چونکہ ان کا سیاسی وجوہات کی بنا پر کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے ان کی تعمیر میں جتنی بھی دیر ہو تو اس کی پرواہ نہیں بلکہ رائے عامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی پرواہ۔ مکران ملک کا ایک اہم ترین خطہ ہے اس لئے ہوشاب، آواران، بیلہ، کراچی ہائی وے تعمیر کی جائے بلکہ یہ اتنا اہم ہے کہ اس کو موٹر وے کا درجہ دیا جائے کیونکہ مکران بین الاقوامی شاہراہ پر واقع ہے سمندری راستوں کے علاوہ زمینی راستوں سے بھی۔ اس لئے صوبائی حکومت اور تمام بلوچ اراکین پارلیمان وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مکران ہائی وے تعمیر کرے۔ خصوصاً ایک ہائی وے وسطی مکران اور دوسرا شمالی مکران یعنی پنجگور۔آواران۔بیلہ اور کراچی جس سے سڑک کا راستہ کراچی اور پنجگور کے درمیان صرف چھ گھنٹوں کا رہ جائے گا۔ مکران کے عوام کے یہ مطالبات جائز ہیں۔ اچھی شاہراہ پر ان کا بھی حق ہے اس لئے جنگی بنیادوں پر گوادر۔ہوشاب ہائی وے تعمیر کی گئی۔ اسی جذبے کے ساتھ یہ دو ہائی وے ایک پنجگور۔گچک۔آواران ہائی وے دوسرا ہوشاب۔آواران۔بیلہ ہائی وے بھی تعمیر ہوں تاکہ لوگوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم ہوں۔ ان علاقوں کو کراچی کے ساتھ ملانے کا مطلب تجارت اور رسل و رسائل میں زبردست اضافہ ہے۔ بلکہ یہ جائز طور پر مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت سیاسی وجوہات کی بناء پر ان دو شاہراہوں کی فوری تعمیر سے قاصر ہے تو صوبائی اسمبلی کے اراکین کے تمام فنڈ زروک کر ان دو شاہراہوں کی تعمیر صوبائی حکومت خود کرے۔ ورنہ یہ سب مل کر وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ اس کی تعمیر کا آغاز جلد سے جلد کیا جائے ۔لاہور۔پنڈی موٹر وے 8ماہ میں بن سکتی ہے تو یہ دونوں سڑکیں کیوں نہیں بن سکتیں بلکہ ان دونوں شاہراہوں کا کاؤنٹرانسرجنسی ترقیاتی پروگرام سے گہرا تعلق ہے۔ اس لئے وفاقی بیوروکریسی کو کوئی بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سڑک بھی پاکستان کی سیکورٹی کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا مکران۔کوئٹہ ہائی وے۔