|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2016

گزشتہ دنوں مکران کے ساحل پر گوادر کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ بنانے کی خاطر بحری مشقیں کی گئیں جس میں بحریہ اور اس سے متعلقہ اداروں نے ان باتوں کی نشاندہی کی جس کا تعلق گوادر بلکہ پورے ساحل مکران کے دفاع سے ہے۔ اس میں عسکری قیادت نے بھرپور شرکت کی اور بحری قوت کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا۔ حالیہ دنوں میں بحریہ نے بھارتی آبدوز کو پاکستانی سمندری حدود میں روک لیا جس سے ثابت ہوا کہ سمندری حدود محفوظ ہیں اور کوئی دوسرا ملک یہاں پر کارروائی کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ سالوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بحریہ اور عسکری قیادت نے عوام کو اعتماد میں لیا اور یہ بتایا کہ ملک کا سمندری علاقہ کتنا محفوظ ہے۔ اس سے قبل کی حکومتوں نے دہائیوں پہلے ایک اچھا قدم اٹھایا تھا اور بحری سرحدوں یا بحری دفاعی حصار کو کراچی سے توسیع دے کر اورماڑہ تک لایا اور یہاں پر بحریہ کا بڑا اڈہ تعمیر کیا جو آج کل زیر استعمال ہے اور دفاعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس سے قبل پورے ساحل مکران میں بحری تنصیبات نہیں تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے فرسودہ اور ناکارہ تنصیبات تھیں جس کو آج کل کے دور میں جدید بنایا جارہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحریہ اپنی دفاعی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھارہا ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق امریکہ کے 60بحری جنگی جہاز خطے میں موجود ہیں اس کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کے تین طیارہ بردار جہاز بھی موجود ہیں بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے موجود ہیں۔ ان کی وجہ سے ایران حالت جنگ میں ہے اور اس کی جنگی تیاریاں بھرپور انداز میں جاری ہیں، آئے دن ساحل مکران پر ایران اور امریکی جہازوں کا ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے جس کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایران نے ایرانی بلوچستان میں وسیع پیمانے پر جنگی مشقیں کی تھیں جو دو لاکھ 20ہزار مربع کلومیٹر پر محیط تھی۔ اس کی وسعت پاکستانی بلوچستان کے سرحد کے چند میل کے فاصلے سے دور ساحل مکران تک پھیلی ہوئی تھی اس میں ملکی اور نئے ہتھیاروں کا استعمال ہواجو نیک شہر سے لے کر کنارک تک پھیلاہوا تھا۔ واضح رہے کہ کنارک ایران کا بہت بڑا بحری، فضائی اور زمینی فوج کا اڈہ ہے جو چاہ بہار سے صرف 50کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس طرح سے ایران جو ہمارا ہمسایہ ہے امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے کسی وقت بھی کوئی حادثاتی واقعہ ان کے درمیان جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے ہماری طرف سے جنگی تیاریاں بھی مکمل رہنی چاہئیں۔ ساحل مکران تقریباً تین ہزار کلومیٹر طویل ہے اس کا ایک خطہ گلف میں واقع ہے جہاں پر آبنائے ہرمز موجود ہے اور دوسرا سرا کراچی ہے۔ یہ پورا ایک ساحلی علاقہ ہے جہاں پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ یہ وہ خطہ ہے جس میں پوری دنیا اور وسطی ایشیائی ممالک، روس اور چین سے تجارت کی دلچسپی رکھتاہے۔ اس لئے ساحل مکران پاکستان کے دفاع اور اس کے تجارتی اور معاشی مفادات کے لئے اہم ہے۔ ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ بحری دفاع کو مزید مضبوط بنایا جائے۔ اورماڑہ کے بحری اڈے کو مزید توسیع دی جائے جہاں سے پورے ساحل مکران کو کنٹرول کیا جاسکے ۔جیونی اور گوادر کے قرب و جوار میں چھوٹے چھوٹے اڈے بنائے جائیں تاکہ اتفاقی واقعات کی روک تھام بھرپور پیمانے پر ہو۔