کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ ہزاروں سالوں سے اپنی سرزمین پر آباد ہیں اور اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں مہرگڑھ کی نو ہزار سالہ تہذیب و تمدن ہمارا ورثہ ہے بولان اور سیوی کے میدان پر ہزاروں سالوں تک بلوچ حکمران حکمرانی کرتے آرہے ہیں تاریخی سرزمین بلوچوں کا مسکن رہا ہے انگریز سامراج نے کوئٹہ کے معاہدے خان قلات خان خدائیداد خان سے کئے کسی اور سے نہیں کوئٹہ کا قلعہ اس معاہدے کی زندہ مثال ہے اگر حکمران جماعت بلوچستان میں مطمئن نہیں تو صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرائیں پشتون علاقوں پر محیط متحدہ افغانیہ ، پشتونستان ، جنوبی پشتونخواء بنانا چاہتے ہیں بنالیں کوئٹہ سمیت بلوچ تاریخی علاقوں کا دفاع ہماری اولین ذمہ دواریوں میں شامل ہے کسی نے یہ سرزمین تحفے میں نہیں دی آباؤاجداد کی قربانیوں کی بدولت یہ سرزمین ہماری مادر وطن ہے متحدہ افغانیہ صوبہ بنا کر یا میانوالی پنجاب میں چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو آباد کر کے پاکستان سے ان کیلئے ملکی شہریت ، شناختی کارڈز حاصل کئے جائیں اور مردم شماری کا حصہ بنائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر چاہیں تو خیبرپختونخواء میں شامل ہو جائیں بیان میں کہا گیا ہے کہ من گھڑت بیانات سے تاریخ کو مسخ کرنا ممکن نہیں ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ بلوچستان میں ترقی پسند ، روشن خیال سیاست کو فروغ دیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ لاکھوں کی آبادی کو بلوچستان میں بسایا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ دیگر صوبوں میں افغان مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے خیبرپختونخواء ، پنجاب نے پالیسی اپنائی تھی تو پارٹی نے بارہا اپنے بیانات کے ذریعے ارباب و اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کراتی رہی کہ فوری طور پر ان کے انخلاء کے حوالے سے پالیسی اپنائی جائے لیکن بلوچستان کے حکمران ایسا کرنے میں ناکام رہی کے پی کے کی حکومت نے بڑی تعداد میں مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنایا اور پنجاب میں بھی کیونکہ ان دو صوبوں کے حکمران اپنے لوگوں کے ساتھ مہاجرین کے حوالے سے مخلص تھے جبکہ بلوچستان کے ارباب و اختیار قومی مفادات کونسل کے اجلاس میں مہاجرین کے حوالے سے چپ سعد رکھی60فیصد بلوچوں کوشناختی کارڈز کا اجراء ممکن نہیں ہوا کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، مکران ، جھالاوان سمیت علاقوں سے 10لاکھ سے زائدبلوچ دیگر صوبوں میں ہجرت کر کے درپدر ہیں اب جبکہ مردم شماری کی جا رہی ہے اس پر صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کو تاریخ چپ سعد رکھنے پرکبھی معا ف نہیں کرے گی ان کے دور حکمرانی میں بلوچ قوم کی سازش کے تحت محکوم بنایا جا رہا ہے اکیسویں صدی میں محض باتوں ، دعوؤں سے معاملات حل نہیں کئے جا سکتے عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے مہاجرین نہ صرف بلوچوں بلکہ بلوچستانیوں کیلئے مسئلہ کا باعث بنیں گے1979کے بعد افغان مہاجرین بلوچستان آئے تو ان کی وجہ سے مذہبی جونیت ، فرقہ واریت جیسے رجحانات فروغ پائے اگر حکمران آج بھی بضد ہیں کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کرا لیں گے تو اس مردم شماری کی کوئی وقعت نہیں ہو گی بلوچستان سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کے فوری انخلاء اور جعلی شناختی کارڈز منسوخ کئے جائیں نہیں تو مردم شماری 2013ء کے انتخابات کی طرح ہوں گے پشتون بھائیوں کے ساتھ رشتے ہیں اور ہمارے لئے قدرت و منزلت رکھتے ہیں مہاجرین کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گابیان میں کہا گیا ہے کہ صوبہ افغانیہ کا مطالبہ کرنے والے بلوچ تاریخ کومسخ نہیں کر سکتے 15مارچ سے قبل مردم افغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی اور مردم شماری سے انہیں دور رکھا جائے شناختی کارڈز اور انتخابی فہرستوں سے نام نکالا جائے بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ اصولوں کے بھی یہ برخلاف ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں نے بلوچستان سے شناختی کارڈز ، پاسپورٹ اور ووٹر لسٹوں میں اپنے ناموں کا اندراج کرائیں مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی گروہی مفادات کے خاطر انہوں نے غیر ملکیوں کے شناختی کارڈز کا اجراء یقینی بنوایا گیا بیان میں کہا گیا ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں اقتدار پر براجمان حکمرانوں کی کوشش ہے کہ جعلی شناختی کارڈز کے اجراء کو جاری رکھا ہے اب بھی بلوچستان حکومت کی مشینری کو بھی غیر قانونی طریقے سے استعمال میں لایا جا رہا ہے بلوچستان حکومت کے ارباب و اختیار نادرا و پاسپورٹ آفس پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ بلاک شناختی کارڈز کا اجراء کیا جائے کوئٹہ کے غیور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ کوئٹہ کے گردونواح میں کونسے علاقے ہیں جہاں اکثریتی آبادی افغان مہاجرین کی ہے اور اسی طریقے سے بلوچستان کے پشتون اضلاع میں افغان مہاجرین نے اپنے لئے تمام دستاویزات حاصل کرچکے ہیں اس کے باوجود اب بھی حکمران بلوچ دشمنی پر پالیسیاں روا رکھے ہوئے ہیں دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت اور اختیار نہیں دیتا کہ 40لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں بلوچستان میں مردم شماری کرائی جائے بلوچستان نیشنل پارٹی اب واضح طور پر کہنا چاہتی ہے کہ مردم شماری سے قبل ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کو جاری شناختی کارڈز فوری طور پر منسوخ کئے جائیں اسی طریقے سے پاسپورٹ اور انتخابی فہرستوں سے مہاجرین سے نام نکلے جائیں جس طرح خیبرپختونخواء اور دیگر صوبوں اور مرکزی حکومت نے انہیں شہروں سے دور کیمپوں تک محدود رکھنے اور ان کے انخلاء کے حوالے سے اقدامات کئے اسی طرح بلوچستان میں بھی فوری اقدامات کرتے ہوئے کیمپوں تک محدود کرنے کے ساتھ ساتھ جاری دستاویزات کو منسوخ اور انخلاء کو یقینی بنایا جائے اس کے برعکس بلوچستان میں مردم شماری ، خانہ شماری کو مسترد کریں گے پورے ملک میں افغان مہاجرین کے حوالے سے یکساں رویہ رکھا جائے بلوچستان حکومت تنگ نظری اور نسلی بنیادوں پر سیاست کر رہی ہے حکومت میں شامل جماعتیں شریک جرم ہیں جو بلوچستان میں افغان مہاجرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور بلوچستان سرکار کی مشینری کو بھی خاطر میں لانے سے گریزاں نہیں تاریخ ان حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی جو بلوچستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے گریزاں نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ انہی افغان مہاجرین کی وجہ سے بلوچستان میں مذہبی جنونیت ، انتہاء پسندی ، کلاشنکوف کلچر ، بدامنی ، فرقہ واریت سمیت دیگر منفی سوچ بڑھ چکی ہے یہی لوگ لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان کی معیشت پر بوجھ ہیں اور معاشی منڈی سمیت تمام علاقوں میں قبضہ گیر بن چکے ہیں مقامی لوگ کا استحصال ہو رہا ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین چاہے کسی بھی نسل ، زبان ، فرقے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں کسی بھی صورت مردم شماری کا حصہ بننے نہیں دیں گے اور نہ ہی دنیا کا کوئی قانون ایسا بنا ہے کہ وہ ان مہاجرین کو غیر قانونی طریقے مردم شماری میں شمار کیا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو یہاں آباد کیا جائے عرصہ دراز سے بلوچستان کے غیور عوام اپنی مہمان نوازی کا فریضہ ادا کر چکے ہیں اب اگر ان کے انخلاء کو یقینی نہ بنایا گیا ہے تو یہ بلوچستانی عوام کے ساتھ استحصال ہو گا بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ارباب و اختیار ، نادرا ، پاسپورٹ حکام ، الیکشن کمیشن فوری طور پر سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ افغان مہاجرین جنہوں نے بلوچستانی کے مقامی خاندانوں میں اپنے نام ڈال کر جعل سازی کے ذریعے شناختی کارڈز دیگر دستاویزات حاصل کر چکے ہیں ان کے ناموں کے منسوخی کا عمل تیز کیا جائے بیان میں کہا گیا ہے نیب نے نادرا میں ہونے والی کرپشن کے خلاف جو کارروائی کی اور کیسز میں نادرا اہلکاروں کو سزائیں بھی ہوئی بہت سے حقائق سامنے آئے کہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے جعلی شناختی کارڈز بنائے اس حوالے سے نیب کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ تحقیقاتی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے فوری اقدامات کرے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کے ارباب و اختیار اگر چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں مذہبی جنونیت ، دہشت گردی ، انتہاء پسندی اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ ممکن ہو تو جس طرح دیگر صوبوں میں افغان مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے اقدامات کئے گئے بلوچستان میں بھی لفاظی حد تک نہیں عملی طور پر ان کے انخلاء کو کیمپوں تک محدود کرنے کے حوالے سے اقدامات کریں اور بلوچستان کے ان سینٹرز جہاں بے ضابطگیاں ہوئیں غیر قانونی طریقے سے شناختی کارڈز جاری کئے گئے ان سینٹرز کا ریکارڈ قبضے میں لے کر افغان مہاجرین کے شناختی کارڈز کو منسوخ کیا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ 2011ء کے خانہ شماری کے دوران سیکرٹری شماریات نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ بلوچستان میں خانہ شماری کے دوران افغان مہاجرین کے گھروں کو کئی کئی بار شمار کیا گیا جس کی وجہ سے قلعہ عبداللہ ، ژوب ، لورالائی ، پشین میں دو سے 5 سو فیصد اضافہ ہوا جو کسی صورت ممکن نہیں یہ سب غیر ملکیوں کی آمد ، شناختی کارڈز کے غیر قانونی اجراء کی وجہ سے ہوا جس سے وہاں کی مقامی آبادی متاثر ہوئی۔