|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2016

محمود خان اچکزئی نے دوبارہ پختونستان یا افغانیہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہوئے پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں پر بھی غیر منقطی دعوے دائر کیے ۔پختونوں کے ایک متحدہ صوبے پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو ۔سیاستدان خصوصاً قوم پرست حلقے ملک بھر میں اس کی حمایت کرتے ہیں ان کا وژن صاف او واضح ہے کہ وہ اس میں افغانستان کے وہ تمام مفتوحہ علاقے جو برطانیہ نے اور بعد میں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑنے کے بعد بلوچستان میں زبردستی اور یک طرفہ طورپر شامل کیے تھے ‘ کے علاوہ کے پی کے کا پور اصوبہ اور فاٹا شامل ہیں ، افغانیہ صوبے میں شامل کیے جائیں۔ بعض مرتبہ محمود خان اور اس کے پارٹی کے رہنماء اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور دوسری قوموں کے علاقوں پر بھی دعویٰ داغ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسی طرز عمل کو شائستگی اور سیاسی بردباری کے خلاف سمجھا جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی قومیت اپنے قومی اور تاریخی علاقوں سے صرف نعرہ بازی کی سیاست کی وجہ سے دستبردار نہیں ہوگی اور ان کی طرف سے شدید مزاحمت ہوگی۔ کیونکہ ایسے دعوؤں کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔ محمود خان اچکزئی نے پہلی بار کھل کر مطالبہ کیا کہ پچاس لاکھ سے زائد افغان غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستانی بنایا جائے ان کو پاکستانی شہریت دی جائے۔۔۔ کیوں؟ محمود خان اچکزئی نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔ اس مطالبے پر پورے پاکستان سے شدید رد عمل کااظہار کیا جارہا ہے اور محمود خان کے مطالبے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے ۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کی غلطی تھی یا کوتاہ اندیشی تھی کہ انہوں نے 1974ء سے ہی افغانستان کے معاملات میں مداخلت شروع کی جب افغان قوم پرست اور ترقی پسند عناصر نے مشترکہ طورپر بادشاہت کا خاتمہ کیا بادشاہ کو معزول کیا اور ملک میں جمہوریت قائم کی جس پر پاکستانی حکمران سیخ پا ہوگئے اور افغانستان کے تمام رجعت پسند اور قدامت پسند عناصر کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دی بلکہ افغان حکومت کو کمزور کرنے اور وہاں خانہ جنگی کی مدد کرتے رہے تاکہ ان کے اہداف پورے ہوں ۔ اس دن سے لے کر آج تک پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات معمول پر واپس نہ آسکے اور اب افغانستان بھارت کے گود میں بیٹھا نظر آرہاہے اور بھارتی حکمرانوں کے احکامات کی تعمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔پاکستان میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ ہے اس لیے پاکستانی حکمران اس مطالبے کو نفرت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عسکری قیادت نے پہلے ہی ان تمام افغان باشندوں کو جو پاکستان میں رہتے ہیں ،کو سیکورٹی کے لئے شدید خطرہ قرار دیا ہے اور حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ان کو جلد سے جلد اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے تو اس کے بعد امن وامان کی صورت حال میں اسی فیصد بہتری کے آثار ہوں گے۔ یہ افغان مہاجرین پاکستان کی کمزور معیشت پر زبردست بوجھ ہیں ان کی دیکھ بھال پر اربوں ر وپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں کوئٹہ کے ہر سرکاری اسپتال میں اسی فیصد مریض افغانی ہیں اور مقامی آبادی کا حصہ بیس فیصد رہ جاتا ہے ، اتنی بڑی رقم ان کی صحت پر خرچ ہورہی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبائی صحت کی بجٹ کا پچاس فیصد کوئٹہ پر خرچ ہورہا ہے جہاں پر حکومت کے چھ بڑے اسپتال موجود ہیں اور ان میں اسی فیصد افغانی نظر آتے ہیں ۔ بلوچستان میں انہوں نے دس لاکھ روزگار کے ذرائع پر قبضہ کررکھا ہے اگر ان کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے تو یہ دس لاکھ روزگار مقامی افراد کو ملے گا۔ اس کے لئے بعض افغانی جرائم پیشہ ہیں ان میں سے کافی لوگ اسمگلرز ‘ چوری ‘ ڈاکہ زنی اور اغواء برائے تاوان میں ملوث پائے گئے۔ جتنے بھی خودکش بمبار تھے وہ تقریباً سب کے سب افغانی تھے اور انہوں نے ملک بھر میں دہشت گردی کی اور پچاس ہزار افراد سے زائد انسانوں کو ہلاک کیا جن میں پانچ ہزارکے لگ بھگ سیکورٹی اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں جو دہشت گردی کا شکار بن گئے ۔ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ا ن افغان مہاجرین کو سول آبادی سے الگ کرنا ضروری ہوگیا ہے پہلے تو ان کو فوری طورپر افغانستان واپس بھیجا جائے اگر یہ فوری طور پر ممکن نہ ہو تو ان کو افغانستان کے سرحدوں کے اندر کیمپوں میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ اپنی مرضی سے گھروں کو واپس نہ جائیں اگر افغانستان میں حالات خراب ہیں اور افغان معیشت اپنے لوگوں کو دوبارہ آباد نہیں کر سکتی تو اس کی سزا پاکستان کے عوام کو نہ دی جائے ۔