|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2016

کوئٹہ : حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ بلوچوں کو مزید پسماندہ کر کے وسائل پر قبضہ گیری کا تہیہ کر لیا ہے 60فیصد بلوچ شناختی کارڈز کے محروم ہیں لاکھوں بلوچ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں کو منتقل ہو چکے ہیں ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کی موجودگی میں مردم شماری کہاں کا انصاف ہے ایسے اقدامات سے مزید بلوچ استحصال کا شکار ہوں گے ان خیالات کا اظہار شہید اقبال کی برسی کی مناسبت سے کلی نوحصار تعزیتی ریفرنس سے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ‘ غلام نبی مری ‘ جاوید بلوچ ‘ یونس بلوچ ‘ ملک محی الدین لہڑی ‘ لقمان کاکڑ ‘ ڈاکٹر علی احمد قمبرانی ‘ آغا خالد شاہ دلسوز ‘ حاجی ابراہیم پرکانی ‘ ملک نوید دہوار ‘ رحیم لہڑی ‘ حاجی باسط لہڑی ‘ صفیح بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کیا اسٹیج سیکرٹری کے فرائض اسد سفیر شاہوانی نے سر انجام دیئے اس موقع پر سردار اکرم کھیازئی ‘ میر ادریس پرکانی سمیت پارٹی کے دیگر دوست بھی موجود تھے مقررین نے شہید اقبال بلوچ کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شہادت کے پیچھے جو عوامل کار فرما تھے اس حوالے سے پارٹی تحقیقات کروانے کی تگ و دو کر رہی ہے انہیں صرف اس بات کی سزا دی گئی کہ نوحصار و گردونواح میں انہوں نے بی این پی کے سہ رنگہ بیرک کو تھام کر جدوجہد کر رہے ہیں بہت سی جماعتیں یہ نہیں چاہتی کہ ان علاقوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی تنظیم کاری اور اسے فعال و متحرک کرے اقبال بلوچ کی قربانی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ہماری جدوجہد ہے کہ ان کے قاتلوں کو عبرتناک سزا دلوائیں بلوچستان نیشنل پارٹی قومی جمہوری سیاست پر یقین رکھتی ہے ہماری جدوجہد کا محور و مقصد انسانیت قومی اجتماعی کا مفادات کا حصول بقاء و سلامتی ہے اسی پاداش میں پارٹی کے رہنماؤں و کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اس جسمانی طور پر تو ہم سے جدا کر دیا گیا ہے نظریاتی و فکری طور پر آج بھی ہمارے ساتھ ہیں مقررین نے کہا کہ قوموں کو نسل کشی کے ذریعے زیر نہیں کیا جا سکتا شہید حبیب جالب بلوچ ‘ نور الدین مینگل سمیت دیگر سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کیا گیا لوگ اس خام خیالی میں تھے کہ شاید بی این پی کو دوستوں کو نشانہ بنا کر پارٹی کو کمزور کر دیں گے لیکن وقت و حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ قومی جدوجہد حقائق پر مبنی ہو اسے ختم نہیں کیا جا سکتا جنرل ضیاء الحق ‘ جنرل مشرف نے بلند و بالا دعوے کئے کہ ہم بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دم لیں گے لیکن آج وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن بلوچ فرزند آج بھی اپنے وطن میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں بلوچ میں انسانی حقوق کی پامالی ‘ آپریشن کئے گئے لیکن بلوچوں کو ختم نہ کیا جا سکتا قوموں کو بروز طاقت ختم نہیں کیا جا سکتا مختلف ادوار میں بلوچوں کے خلاف استحصالی روش اپنائی گئی اور ناانصافیوں پر مبنی پالیسیاں مرتب کی گئیں بلوچوں کے وسائل کو لوٹ گیا قدرتی دولت کو بے دردی کے ساتھ لوٹا تو گیا لیکن ان کا ایک فیصد بھی بلوچ وطن کی ترقی و خوشحالی پر خرچ نہیں کیا گیا اسی وجہ سے محرومی ‘ محکومی اور قومی نابرابری کے عنصر میں اضافہ ہوا حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ بلوچوں 60فیصد شناختی کارڈز کا اجراء نہیں ہوا 10لاکھ سے زائد بلوچ مکران ‘ جھالاوان ‘ کوہلو ‘ڈیرہ بگٹی سمیت بیشتر علاقوں سے جنرل مشرف کی ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے باحالت مجبوری ہجرت کر چکے ہوں اور اب شدید مشکلات سے دوچار ہیں 40لاکھ افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے بلوچستان میں آباد ہیں ان کو شناختی کارڈز ‘ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات فراہم کی گئیں ان تمام حقائق کا بخوبی علم رکھنے کے باوجود بلوچستان میں مردم شماری کروانا کہاں کا انصاف ہے ایسے ناروا بلوچ دشمن اقدامات سے بلوچ فرزندوں کے ذہنوں میں یہ بات یقینی نہیں ہو گی کہ آج بھی پنجاب کے حکمرانوں بلوچوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے میدان میں اتر آئے ہیں حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی ‘ ناانصافیوں کے خاتمے اور بلوچوں کو قومی دارے میں شامل کرنے کا وعدہ کیا اب جبکہ وہ تخت اسلام آباد پر براجمان ہیں اپنی اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر تمام وعدے بھول چکے ہیں بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین پر مزید پسماندگی کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہر دفعہ ہماری 75فیصد آبادی کو کم ظاہر کیا گیا جعلی مردم شماری میں آخر کیوں 40لاکھ مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں کیوں اپنی معیشت پر ہم بوجھ بنیں اگر پنجاب کے حکمرانوں کو مہاجرین سے اتنی محبت ہے تو انہیں پنجاب میں آباد کریں اور قومی شہریت بھی دے دیں ہمیں اس سے کوئی سرکار نہیں بلوچستان میں ان کو مردم شماری کا حصہ بنایا گیا تو یہ بلوچ دشمن اقدام تصور کیا جائے گا تو ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہو گا قوموں کو اس طریقے سے قومی دارے میں شامل نہیں کیا جا سکتا قومی جمہوری سیاست پر یقین رکھتے ہیں مردم شماری جو موت و ذیست کا مسئلہ ہے اس پر خاموش نہیں ہوں گے مقررین نے کہا کہ بلوچ فرزند شعوری و فکری طور پر سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں حالات کا سنجیدہ ہو کر مقابلہ کریں اور آگاہی مہم چلائیں ۔