اسلام آباد: دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ہے جب کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن تو کیے گئے مگر سہولت کاروں اور مالی معاونت کرنے والوں کو ابھی گرفت میں نہیں لیا جا سکا ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد کل جماعتی کانفرنس بلا کر دہشت گردوں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا جس کے تحت فوجی عدالتوں کو فعال بنا کر درجنوں گرفتار دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ سول اور ملٹری فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں کامیاب کارروائیاں کیں اور کومبنگ آپریشن شروع کیے جس سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں بھرپور کارروائیاں کررہے ہیں وہاں انتظامیہ اپنے حصے کا کام پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی نہ ہی نیکٹا فعال ہوا اور نہ ہی مدارس کو فنڈنگ پر جوابدہی کے لیے راضی کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ دینی مدارس میں اصلاحات نیشنل ایکشن پلان کا سب سے اہم جزو تھا، مدارس کی رجسٹریشن 90 فیصد مکمل ہو چکی ہے تاہم مدارس ابھی تک آڈٹ کر وانے کے لیے راضی نہیں ہوئے۔ انسداد دہشت گردی فورس صرف پنجاب میں قائم کی گئی ہے کیونکہ دوسرے صوبوں میں فنڈز کےمسائل ہیں۔
نیکٹا کے تحت جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جانا تھا جو تاحا ل قائم نہیں ہو سکا ۔وزیر اعظم کی بنائی گئی لیگل ریفارمز کمیٹی بھی فوجداری اور دیوانی قوانین میں اصلاحات کا عمل مکمل نہیں کر پائی۔