بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کی طرف سے یہ جائز شکایات آرہی ہیں کہ نہ ان کو اختیارات دئیے جارہے ہیں اور نہ ہی وسائل جس کی وجہ سے پورا بلوچستان ایک بڑی کچھی آبادی میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اس کی بنیادی وجہ کرپشن اور اختیارات ووسائل کا غلط اور بے جا استعمال ہے ۔ پہلے تو حکومت یہ فیصلہ کرے کہ اراکین اسمبلی صرف اور صرف قانون سازی کریں اور ان کو معاشی منصوبہ بندی اورپھر ان پر عمل درآمد کرانے کے تمام اختیارات واپس لیے جائیں ۔ اس کے بعد وسائل کو صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان تقسیم کیاجائے یعنی دیہی ترقی کے کام بلدیاتی اداروں کے پاس ہوں اور معاشی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہو ۔ اس میں صوبائی پارلیمان ان تمام امور پر نظر رکھے اور وقتاًفوقتاً ان کو زیر بحث لائے ۔المیہ یہ ہے کہ فوجی آمر جب بھی اقتدار میںآتے ہیں تو وہ وفاقی اور صوبائی پارلیمان کے خلاف اپنی شدید نفرت کو نہیں چھپاتے اور اس کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وفاقی اور صوبائی پارلیمان اقتدار اعلیٰ کے جائز حقدار ہیں اور فوجی آمر اقتدار پر بندوق کی نوک پر قبضہ کرتے ہیں اور حکم چلاتے ہیں اور ان کا سب سے زیادہ من پسند شعبہ بلدیاتی ادارے ہیں۔ بعض اوقات سابق فوجی آمروں نے بلدیاتی اداروں اورمقامی اداروں کو ایکٹورل کالج کے طورپر استعمال کیا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت پسند جب اقتدار میں آتے ہیں وہ نیچے لیول کے بلدیاتی اور مقامی اداروں سے شدت نفرت کرتے ہیں اور مقامی نمائندوں کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور بڑی حد تک ان سے امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں ۔صوبائی اسمبلی کے اراکین صوبائی وسائل پر مکمل حق جتاتے ہیں اور مقامی اداروں اوربلدیاتی اداروں کو اس کا حقدار نہیں سمجھتے اور ممکنہ حد تک ان کے وسائل روکتے ہیں۔ بلوچستان آج کل انہی مسائل سے دو چار ہے ۔ آئے دن بلدیاتی نمائندے اس کی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے فنڈز روک لیے گئے یا جاری نہیں کیے گئے اور ان کو ابھی تک اختیارات نہیں دئیے گئے۔ قوانین اور آئین کی رو سے ان کو جائز اختیارات کے ساتھ ساتھ وسائل بھی ملنے چاہئیں صوبائی مالیاتی کمیشن کا ایوارڈ بھی آنا چائیے جس کے تحت بلدیاتی یا مقامی اداروں کو صوبائی بجٹ کا کم سے کم حصہ ملنا چائیے تمام چھوٹے اور مقامی منصوبوں پر بلدیاتی ادارے عمل درآمد کریں بلکہ ہم تو یہ تمام اختیارات دینے کے حق میں ہیں کہ پرائمری اسکولوں اور مقامی صحت کے مراکز کے تمام انتظامات اور اختیارات بلدیاتی یا مقامی اداروں کے پاس رہنے چاہئیں تاکہ بھوت اساتذہ اور بھوت ڈاکٹروں کا مسئلہ مقامی طورپر حل ہو ۔ صوبائی حکومت کی اس پریشانی کو دور کیاجائے کہ بھوت ڈاکٹر اور اساتذہ کا کیا کیا جائے ۔ فوجی حکومتوں کے زمانے میں اکثر بلدیاتی اور مقامی ادارے مادر پدر آزاد تھے اور بعض ادارے اربوں روپے خرچ کرتے تھے کرپشن اپنے عروج پر تھی یہ سب کچھ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحبان کے آنکھوں کے سامنے ہوتا تھا چونکہ ان کو فوجی حکومت بلکہ فوجی آمر کی حمایت حاصل تھی اس لیے افسر شاہی کچھ نہ کر سکی۔ ان تمام بلدیاتی اداروں کی اچھی کارکردگی کے لئے ضلعی حکام اور افسران کو کلیدی کردار بھی دینا چائیے تاکہ یہ ادارے کرپشن نہیں بلکہ لوگوں کی خدمت کریں ۔اس لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو نہ صرف مضبوط بلکہ موثر بھی بنایا جائے تاکہ یہ عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکیں ۔ بہر حال اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات سلب کیے جائیں اور وسائل سے ان کو محروم کیاجائے اور ساتھ یہ بھی توقع رکھی جائے کہ وہ عوام کی خدمت بھی کریں گے۔ اگر بلوچستان کو ایک بڑی کچھی آبادی بنانے سے روکنا ہے تو بلدیاتی نظام کو متحرک کریں ، اس کو زیادہ موثر بنائیں اور اس کو عوام اور صوبائی حکومت کے سامنے جواب دہ بھی بنائیں۔ کسی بھی شخص کو وسائل لوٹنے اور بے دریغ خرچ کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔پہلے بے لوث خدمت اور اس کے بعد مناسب وسائل وہ بھی مکمل جوابدہی کے ساتھ ‘ ہم ایک موثر بلدیاتی نظام کی حمایت کرتے ہیں جو شہریوں کو بیماریوں سے پاک اور ایک صحت مند ماحول فراہم کرے ۔