بلوچ سردار اور پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند نے مطالبہ کیا ہے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کیلئے ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن قائم کیاجائے جو بلوچستان میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے آئینی اور انتظامی اصلاحات تجویز کرے جو خصوصاً تمام طاقتور ترین افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ اس وقت بلوچستان میں تین ادارے ایف آئی اے، نیب اور اینٹی کرپشن کام کررہے ہیں۔ پہلے دو اداروں کا تعلق وفاق سے ہے اور تیسرا ادارہ غیر موثر اورانتہائی معذور صوبائی حکومت کے ماتحت ہے ۔ دہائیوں پہلے یہ ادارہ سپاہیوں اور کم تر درجے کے ملازمین کو رنگے ہاتھوں اور ڈرامائی انداز میں پکڑنے کی خبریں اخبارات میں چھپواتا تھا ۔ آج کل وہ بھی بند ہوگیا ۔ ایف آئی اے بد عنوانی کے تدارک میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی رہی ہے جبکہ نیب ایک متنازعہ ادارہ بن گیا ہے۔ مشتاق رئیسانی کے مقدمہ کے فیصلے کے بعد عوام الناس میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ نیب مقدمے کی تمام تر تفصیلات عوام کے سامنے رکھے گا کیونکہ اس اسکینڈل میں بلوچستان کی سیاسی حکومت ملوث ہے ۔ اس کا ایک وزیر ابھی تک زیر حراست ہے ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مشتاق رئیسانی کے ساتھ ساتھ پوری سیاسی پارٹی اور اس کی حکومت کا کیا کردار ہے ۔ سابق وزیر کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس کے ملوث ہونے کے کیا ثبوت ہیں ۔ اس سے کیا برآمدگی ہوئی؟ اس کے اثاثے کتنے ہیں بیرون ملک کتنی دولت ہے ۔ اگر وزیر صاحب منی لانڈرنگ میں ملوث تھے تو ان کے خلاف کیا کاروائی ہورہی ہے۔
بہر حال لوگوں کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ستر کروڑ روپے کیش کی برآمدگی ایک معمولی واقعہ ہے ۔ بورڈ نے ان کو رہا کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ان میں سے صرف دو افراد نے دو ارب روپے اور سوا ارب روپے کی جائیداد حکومت کے حوالے کی ہے ۔ گزشتہ چار سالوں میں کرپشن کی رقم 200ارب روپے بنتی ہے ۔ اس میں سیاسی پارٹی اور اس کے اہم رہنما ملوث بتائے گئے ۔ وہ سب کے سب عوام کو بتائے بغیر بری ہوگئے ۔