|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2016

سابق سیکرٹری خزانہ کے سرکاری رہائش گاہ سے ستر کروڑ روپے کیش ‘ غیر ملکی کرنسی اور زیورات کی برآمدگی کے بعد پورے ملک اور خصوصاً بلوچستان میں یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ سابق سیکرٹری خزانہ کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے مگر مچھ اور انکے سیاسی آقا قانون کی گرفت میں آئیں گے اور ان سب کو ملکی قوانین کے مطابق سزائیں بھی ہوں گی ۔ ظاہر بات ہے ایک سرکاری ملازم اتنی بڑی کرپشن بغیر سیاسی پشت پناہی کے نہیں کر سکتا تھا خود نیب کے حکام نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے خلاف چالیس ارب روپے کے کرپشن کے الزامات تھے اس کے علاوہ سیکرٹری خزانہ پورے تین سالوں تک صوبائی محکمہ خزانہ کا سیاہ و سفید کا مالک تھا اور اس دوران بلوچستان کو وفاق سے مجموعی طورپر 700ارب سے زیادہ کی وصولی ہوئی۔یہ تمام رقم سیکرٹری خزانہ کے توسط سے خرچ ہوئی اس میں سے ایک بڑی کیش رقم اس کے سرکاری رہائش گاہ سے برآمد ہوئی ۔ سوائے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں کے باقی رقم ان کرپٹ افسران اوران کے سیاسی آقاؤں کے پاس تھی ہر فنڈ کی ریلیزکا حکم ریاستی نظام کے توسط سے آتا تھا ان میں مشیر خزانہ ‘ چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کی مرضی شامل تھی بلکہ فنڈز کی باقاعدہ منظوری دی جاتی تھی۔ شنید ہے کہ بعض اوقات فنڈز کے ریلیز کے احکامات زبانی کلامی اور فون پر بھی دی جاتی تھیں ۔ نیب کے حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابق سیکرٹری خزانہ نے اپنے تمام کرپشن کے جرائم تسلیم کرلیے تھے تو کیا انہوں نے کسی اعلیٰ قائد کو بھی موردالزام ٹھہرایا تھا یا نہیں ؟ اس پر نیب کے حکام خاموش ہیں۔ ان کی تمام تر تفصیلات موصوف کی پراپرٹی کی برآمدگی تک محدود ہیں ۔ نیب مجموعی طورپر بلوچستان میں کرپشن کے معاملے پر خاموش ہے یہ خاموشی معنی خیز معلوم ہوتی ہے اس کا مقصد سیاسی اثاثوں کا تحفظ معلوم ہوتا ہے ۔ مثال کے طورپر صرف ایک صوبائی وزیر نے گزشتہ مالی سال اپنے ذاتی ترقیاتی پروگرام پر ایک ارب 80کروڑ روپے صوبائی خزانہ سے خرچ کیے ۔ یہ تمام رقم سیکرٹری خزانہ نے ریلیز کی تھی وہ تمام اسکیم کہاں واقع ہیں ’ ان کی تفصیل سیکرٹری خزانے سے پوچھی گئی تھی یا نہیں؟ اتنی بڑی رقم کے ایک مالی سال کے دوران خرچ کرنے کے کیا معاشی اور مالیاتی اثرات پڑے، لوگوں کو کتنی ملازمتیں ان اسکیموں کی وجہ سے ملیں اور ریاست کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا ۔ پس پورے مقدمے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو شخص بلوچستان کے 700ارب روپے فنڈ کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اب وہ صرف دو ارب روپے ادا کرکے رہائی پا رہا ہے ۔ اس کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ جتنی دولت انہوں نے کہیں اور یا کسی باہر کے ملک میں چھپائی وہ اس کی اور اس کے خاندان کی ملکیت ہوگی۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کرپشن کریں اور ساتھیوں کے ساتھ کریں اور صرف ایک معمولی حصہ پلی بارگین میں ادا کریں آپ پاک صاف اور رہا ہوجائیں ۔ مزید دولت خرچ کرکے دوبارہ عزت کما لیں۔ سپریم کورٹ نے اس پلی بارگین کے خلاف سخت ترین بیانات دئیے اور کھلے الفاظ میں نیب کو منع کیا گیا تھا کہ وہ ایسا نہ کرے۔ پلی بارگین کرپشن کی ہمت افزائی ہے ۔ اس کے مقاصد میں جرائم پر پردہ ڈالنا اور ساتھ ہی دوسروں کو کرپشن کی ترغیب دینا بھی شامل ہے ۔عوام کی اربوں روپے کی رقم لوٹ لو اگر پکڑے جاؤ تو پلی بارگین کر لو ۔ ایک چھوٹی سی لوٹی ہوئی رقم کا حصہ ریاستی اداروں کو واپس کرو اور باقی زندگی اپنے خاندان کے ساتھ عیش سے گزارو۔ ایڈ مرل منصور الحق کی مثال سامنے ہے ۔ پاکستان کے وفاقی نظام کو نا قابل تلافی نقصانات پہنچانے کے بعد وہ شخض بیرون ملک عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے ۔ اس سے صرف ایک بات ثابت ہوئی کہ پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں کرپشن کے لئے کو ئی سزا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس انعام موجود ہے جو پلی بارگین کی صورت ہے ۔ یہ کرپشن کی ہمت افزائی ہے ۔ اس کا مقصد عوام کو قومی وسائل سے محروم رکھناہے ۔ پاکستان اور اس کے عوام کو پسماندہ رکھنا ہے ۔ اس لیے بلوچستان میں مایوسی مقابلتاً کہیں زیادہ ہے ۔ کیوں کہ ریاست اور ریاستی اداروں کی زیادہ تر کوششیں کرپٹ عناصر کا تحفظ معلوم ہوتا ہے شاید ان عناصر کو ریاستی ادارے ایک نایاب اور قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں ۔