پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 2015 کے مقابلے میں رواں سال نہ صرف خود کش حملوں میں اضافہ ہوا بلکہ اس دوران ہلاکتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں بلوچستان میں دو خود کش حملے ہوئے تھے جن میں 11 افراد ہلاک اور 12زخمی ہوئے۔
اس کے مقابلے میں رواں سال 2016 میں چھ خود کش حملے ہوئے جن میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر پولیس اہلکار اور وکلا شامل تھے۔
محکمۂ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے وکلا پر خود کش حملے کے بارے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی گئی اس کے مطابق رواں سال 15 اکتوبر تک چار خود کش حملے ہوئے۔
ان حملوں میں 102 افراد ہلاک اور187 زخمی ہوئے۔
ان میں سب سے بڑا خود کش حملہ آٹھ اگست کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ہوا جس میں 55 وکلا سمیت 65 سے زائد افراد ہلاک اور 105 زخمی ہوئے۔
آٹھ اگست کو وکلا پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد تین خود کش حملہ آوروں نے 25 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کیا۔
اس حملے میں 65 پولیس اہلکار ہلاک اور110 سے زائد زخمی ہوئے۔
تیرہ نومبرکو ضلع خضدار میں شاہ نورانی کے مزار پر خود کش حملہ ہوا جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔
خود کش حملوں اور ان میں ہلاکتوں میں اضافے کی وجوہات کے بارے میں حکومت بلوچستان کے ترجمان انوارالحق کا کڑ نے کہا کہ ’ہم ایکconflict zone میں رہ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ جس خطے میں ہم رہ ہے ہیں وہاں ایسی قوتیں ہیں جو ہمیں مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں جس کی وجہ سے ان حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔‘
بلوچستان میں خود کش حملوں کا سلسلہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2003 میں شروع ہوا تھا۔
تاہم محکمہ داخلہ نے کمیشن کے سامنے 2007 سے جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق 2007 میں تین خود کش حملوں میں 22 افراد، 2010 میں پانچ حملوں میں 88 افراد،2011 میں پانچ حملوں میں 38 افراد، 2013 میں پانچ حملوں میں 175جبکہ 2014 میں چھ خود کش حملوں میں 63افراد ہلاک ہوئے۔
با شکریہ محمد کاظم