بلوچستان کے علاقے آواران میں خسرے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے پانچ بچے زندگی کی بازی ہارگئے جبکہ آواران کے مختلف علاقوں میں 40 سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں ،ژوب میں خسرے کی وباء سے 9 بچے جاں بحق ہوئے ہیں جس سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ بڑھ گیا ہے ، متاثرہ افراد ڈسٹرکٹ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ضلع آواران میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ٹیموں کو ہدایت کرتے ہوئے فوری طور پرمتاثرہ علاقوں میں پہنچنے کا حکم جاری کیا ہے۔ بلوچستان کی بجٹ میں ایک بڑی رقم صحت کیلئے مختص کیا گیا ہے تاکہ اس محکمہ کی حالت زار کو بہتربنایاجاسکے۔ المیہ یہ ہے کہ بھاری بھرکم بجٹ کے باوجود محکمہ صحت کی ڈھائی سالوں کے دوران کارکردگی صفر دکھائی دیتی ہے ماسوائے ایک ٹراما سینٹر کوئٹہ سول ہسپتال میں قائم کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس کوئٹہ سول ہسپتال میں آج بھی صحت کی سہولیات موجود نہیں، مشینری ، آلات، ادویات سمیت ڈاکٹروں اور اسٹاف کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔محکمہ صحت کو 80 فیصد بجٹ جاری کرنے کے بعد ہونا یہ چاہیے کہ وہ سہولیات اور کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ماہرین کے ساتھ ملکر ایک بہترین پروگرام تشکیل دیتے جس سے خسرہ، پولیو، کانگو سمیت دیگر جان لیوا وائرس سے بچنے کیلئے پالیسی مرتب کی جاتی مگر اس جانب خاص توجہ نہیں دی گئی۔ حالت یہ ہے کہ اب اقرباء پروری اور اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے بہترین ماہرین ،ڈاکٹروں سمیت صحت کے اعلیٰ عہدوں پراپنے من پسند افراد کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے معصوم جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ کوئٹہ سول ہسپتال میں سہولیات کے فقدا ن سے اندرون بلوچستان علاقوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی حالت کس قدر ابتر ہوگی۔ حالیہ خسرے کی وباء سے قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کی رپورٹ سامنے آئی ہے مگر نہ جانے کتنے ایسے متاثرین اب بھی ہیں جو مختلف خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں اور جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ان کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔ بلوچستان کے سادہ لوح عوام اللہ کے سہارے اپنی زندگی گزاررہے ہیں اور خطرناک بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں نہ کہ ہم اس سے مقابلہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ مرض کا مقابلہ اس وقت مریض کرتا ہے جب اس کو اس بات کی تسلی ہو کہ اس کا علاج بہتر انداز میں ہورہا ہے مگر یہاں معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ محکمہ صحت نے عوام کو بے یار ومدد گار چھوڑ دیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ذمہ داران جب تک محکمہ صحت سے اس کی مستند سالانہ رپورٹ طلب نہیں کرینگے یہ مسئلہ مزید سنگین شکل اختیار کرتا جائے گا۔ افسوس کہ آج بھی بلوچستان کے عوام معمولی بیماریوں کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قوم پرست حکومت کے دوران یہ سلسلہ جاری رہا مگر اب مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں حکومت کی بھاگ ڈور ہے ان کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محکمہ صحت کی کارکردگی کاہنگامی جائزہ لیکر تمام ذمہ داران کو طلب کرکے کوتاہیوں کی وجوہات پوچھیں تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں اور اقرباء پروری اور اپنوں کو نوازنے سے بالاتر ہوکر بہترین ماہرین کو ترجیح دیکر محکمہ صحت کے حوالے سے پروگرام تشکیل دے کر پورے بلوچستان میں اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ بروقت عوام کو صحت کی سہولیات پہنچ فراہم ہو سکیں اور ایسی نوبت نہ آئے کہ بڑی تعداد میں معصوم جانیں ضائع ہوں۔ اب یہ ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے کہ وہ محکمہ صحت کے متعلق نہ صرف بجٹ پر غوروخوص کرے بلکہ جہاں پیسے خرچ ہورہے ہیں ان کے آڈٹ کیلئے مانیٹرنگ پالیسی بنائے تاکہ عوام کا پیسہ کرپشن کی بجائے ان پر خرچ کیاجاسکے۔ماضی میں جس طرح ہوتا رہا ہے وہ حالات سب کے سا منے ہیں آج بلوچستان سے اٹھنے والی ایسی خبریں صوبے کیلئے بہتر نہیں بلکہ ایک غلط تاثر آگے جائے گا کہ یہاں کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ دوسری جانب بڑے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں ان تمام تاثرات کو زائل کرنے کیلئے حکومت سنجیدگی سے صحت سمیت تمام شعبوں پر توجہ دے تاکہ آنے والے وقت میں صوبہ کے متعلق حوصلہ افزاء خبریں سامنے آسکیں جس سے حکومت کا ایک بہتر امیج قائم ہو اور عوام بھی حکومت کے فراہم سہولیات سے استفادہ کریں اور غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں کو کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے ۔