اس میں دو رائے نہیں کہ اسلام آبا د میں موجود بلوچستان کے نما ئندے قومی ، سیا سی اور صو بائی معا ملات سے زیادہ اپنے ذاتی معا ملات میں دل چسپی لیتے ہیں۔ ایک آدھ نما ئندہ کبھی کبھار پاکستان کے کلید ی معاملا ت پر بحث کرتاہے تو اس کومفاد پر ست میڈ یا بلیک آوٹ کر دیتا ہے۔ بعض نما ئندوں کو اس بارے میں شکا یت ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کی تقاریر اور کر دار کو میڈ یا میں کو ئی پذیر ائی نہیں دی جا تی۔ پا کستانی میڈ یا کا معیار اور مفا دات کچھ اور ہیں وہ کیوں پسما ندہ صو بے کے معا ملات کو اجا گر کر ے اور مقتد رہ یا حکومت وقت کی سے راضگی مو ل لیں ۔آج پا کستان مسا ئل میں گھرا ہو اہے خصو صاً معا شی ، سما جی ، سیا سی اور گور ننس کے مسا ئل ، میڈ یا کو اپنا رویہ تبد یل کر نا ہو گا تا کہ ملک میں تمام چھوٹے صو بوں کے جائز مفا دات کا تحفظ ہو سکے جو صر ف ایک جمہوری اور وفا قی نظام سے وابستہ ہے جس میں سب سے چھوٹے اور بے آواز صو بے کو نہ صرف ز یادہ سے زیادہ اختیار ت ملیں بلکہ اس کے صوبا ئی معا ملات میں مداخلت کم سے کم ہو اور اس کو وہ تمام ذرائع اوروسا ئل فر اہم کر یں جس سے وہ اپنے لا محدود وسا ئل کو تر قی دے سکے،ان میں گو ادر کی بند رگاہ ،ریکوڈک اور جندران کے تیل اور گیس کے ذرائع کو تر قی دینا شا مل ہیں ہم اس با ت کی مخالفت کر تے ہیں کہ بین الا قوامی اور ملٹی نیشنل کمپنیا ںآکر یہاں کے وسائل کو استعمال میں لائیں اور بلوچستان کے وسا ئل کا 60سے 80فیصد لوٹ کر جا ئیں اور عوام الناس کے حصے میں صر ف اور صرف چند نو کر یا ں آئیں ۔ریا ست پا کستان حکومت بلوچستان کی اس سلسلے میں مدد کرے کہ ریکوڈ ک کا تانبہ اور سو نے کے منصو بے، جندران کے تیل اور گیس کے منصوبے پر کا م جلد سے جلد شر وع کیا جا ئے اور گو ادر پورٹ کو جلد سے جلد بین الا قوامی ریلوے لا ئن سے منسلک کر کے اس بڑی بند رگاہ کو فعال بنا ئیں تا کہ ریاست پا کستان کو اربوں ڈالر کی سا لانہ آمد نی شر وع ہو جا ئے۔ اس لیے بلوچستان کے ساتھ وفاق کو کشادہ دلی کے ساتھ تعاون کی ضرور ت ہے جس میں مائر ین اقتصادیات اور دوسرے شعبوں کے مائرین کی ضرورت ہو گی۔ ہم یہاں زیادہ شد ت کے سا تھ اس بات کی حما یت کر تے ہیں کہ بلوچستان کو مز ید اختیارات دئیے جا ئیں بلکہ ریاستی امور چلا نے میں بلوچستان کو بھی ایک اہم کر دار سو نپا جا ئے تاکہ یہ مز ید صو با ئی خو د مختاری اور منصو بہ بندی میں زیا دہ اختیارت استعمال کرتے ہوئے وفا ق کی زیادہ تو جہ اور عزم کے ساتھ اپنے علا قوں کو ترقی د ے سکے۔ روزگار کے مسا ئل، پسما ندگی کے مسا ئل اور وسیع تر معاشی اور سما جی مسا ئل کو خو د حل کر سکے۔ وہ وفا قی حکو مت کی طر ف نہ دیکھیں بلکہ حکمرانوں سے بھی زیادہ تمام صو بوں کے پا س یکسا ں اختیارت ہوں ایک صدر یا وزیر اعظم خواہ عوام کا منتخب نما ئندہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو شا ہی حکمرانی کے اختیارات نہ دئیے جا ئیں۔ اختیارا ت کی منتقلی پہلے وفاقی اکا ئیوں میں اور بعد میں مقا می یا بلد یا تی اداروں میں ہو نے چا ئیں۔ لہذا ہمار ا یہ فر ض بنتا ہے کہ پا کستان کے مو جو دہ دور میں قا نو نی حکمرانی کے مسا ئل پر دوبار ہ غور کر یں اور اسی بات کی آئین سا زی ہو کہ پا کستان کے تمام وفاقی اکا ئیاں بر ابر ہیں کسی کو بھی دوسرے پر حکمرانی کا حق نہیں اور نہ ہی کوئی با لا دستی قا بل قبول ہو۔ پہلے یہ تسلیم کیا جائے کہ پا کستان بلوچوں ، سندھیوں ، سر ائیکوں ، پنجا بیوں اور پختونوں کا ایک مشترکہ وطن ہے یہ سب کے سب پا کستانی ریاست اورملک کا حصہ ہیں لہذا سب کے حقو ق برا بر ہیں کسی بھی قوم کو دوسر ی پر بر تری حا صل نہیں ہے اس لیے ضر ورت اس با ت کی ہے کہ اختیارات کی دوبارہ تقسیم کا عمل شر وع کیا جائے اورپہلے پاکستان کے پا رلیمان کے اندر تمام وفاقی اکا ئیوں کی نما ئندگی بر ابر ہو یا دوسرے الفاظ میں سنیٹ کو زیادہ طا قتور بنا یا جا ئے تاکہ آئند ہ ملک کا حکمران پنجاب سے زیادہ ووٹوں کو خریدنے والا تا جر نہ ہو بلکہ وفا ق پاکستان کے تمام و فا قی اکا ئیوں کو ایک نظر سے دیکھے ۔عوامی نما ئندوں سے یہ امید رکھی جائے کہ وہ اس سمت قا نو ن سا زی کر یں اور سیا سی نظام کو زیا دہ قا بل قبول اور مستحکم بنا ئیں ۔