کوئٹہ : بلوچ نیشنل فرنٹ کا چھٹا مرکزی کونسل اجلاس فرنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ جس میں کونسل کے تما م کونسلروں نے شرکت کی ۔اجلاس کا ا فتتاح شہدا ء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی سے ہوا۔ اجلاس میں سیکریٹری رپورٹ ، تنظیمی امور،بلوچستان اورخطے کی سیاسی صورتحال او ر آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ اوراتحاد کے کابینہ کا مدت پوراہونے سے نئی کابینہ بھی منتخب کیاگیاجس میں خلیل بلوچ چیئرمین ،کمال بلوچ سیکریٹری جنرل اوردل مرادبلوچ انفارمیشن سیکریٹری منتخب ہوئے ۔مرکزی کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ دنیا کوپاکستان کی سیاسی و عسکری مددیا خطے میں’ امن و استحکام کے حصول‘ میں سے ایک کا چناؤکرنا ہوگا،پاکستانی ریاست دہشت گردی کا مرکز ہے جہاں مذہبی شدت پسند پوری دنیا میں پھیلنے اور بدامنی پھیلانے کی تربیت آزادی سے حاصل کررہے ہیں۔ پاکستان کسی تاریخی یا تہذیبی ارتقاء اور سیاسی یا انقلابی جدوجہد کی پیداوار نہیں بلکہ مغرب کے مفادات کی حفاظت کے لئے تشکیل پانے والے ملک ہے جس کی پالیسوں نے پوری انسانیت کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔خطے میں امن و استحکام اور ترقی و تعمیرکا نیا دور آزادبلوچستان سے وابستہ ہے ۔ ہماری آزادی کا وسیع فوائد سندھی، پختون،افغانستان،بھارت کا تقدیر بدل دیں گے بلکہ اس کے مثبت اثرات مجموعی طورپر دنیا کو موجودہ صورت حال سے نکالنے کے لئے معاون ثابت ہوں گے ۔ پاکستان مقبوضہ بلوچستان کومکمل طورپر ایک ملٹری زون بنا چکا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے پاکستان ظلم و جبر کی اس سے کئی درجہ بدتر داستانیں رقم کررہاہے جواس نے بنگلہ دیش میں کئے تھے۔ آج بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالی اپنے عروج پرہے۔ اس وقت پورا بلوچستان فوجی آپریشنوں کی زد میں ہے خصوصاََ سی پیک سے ملحق علاقوں کے بلوچ عوام کے خلاف فوجی بربریت میں انتہائی تیزی لائی گئی ہے۔ ریاست طاقت کے تمام مراکز کو بلوچ کے خلاف سرگرم عمل کرچکا ہے جو بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں اُن میں باقاعدہ عسکری ،نیم عسکری ادارے ،خفیہ ایجنسیاں ،مذہبی و سیاسی جماعتیں ،ریاستی ڈیتھ اسکواڈزشامل ہیں۔ بلوچستان میں تمام عالمی قوانین پاکستان کے لئے بے معنی بن چکے ہیں، جب عالمی طاقتیں بلوچ نیشنلزم کی بنیادپر بلوچ قومی تحریک آزادی کی حمایت کریں اورآزاد بلوچ وطن کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوں ۔ماضی میں عالمی طاقتوں کی مفادات اور مقبوضہ خطوں اور قوموں کے لئے اُن کی ترجیحات اور تصورات محکوم قوموں کی بنیادی حقوق سے متضاد اور متصادم رہے ہیں، عالمی طاقتوں نے ہمیشہ قوم پرستانہ سیاست اور نیشلزم کے نظریے پر کاربند قوموں کو روندنے کے لئے قابضین کی پشت پناہی کی ہے ،ان کے بے پناہ مدد کی ہے ،جس کا خمیازہ آج دنیا دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کی صورت ادا کررہاہے۔ غیر واضح ،مفاداتی اور متضاد بنیادوں پر قائم پالیسیوں نے دنیا کوانتشاراورانارکی کاشکاربنادیا ہے، کل وجود میں آنے والے طالبان ،القاعدہ ،بوکوحرام اور آج داعش مغرب کی نیشنلزم گریز پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔بی این ایف قوم کی قیادت کرکے موثرحکمت عملی سے جس طرح 2013کے پاکستانی الیکشن کو مقبوضہ بلوچستان میں ناکام بنادیا تھا اسی طرح متوقع الیکشن بھی ہماری جمہوری اور عوامی جدوجہد کے ذریعے ناکامی سے دوچار ہوں گے لیکن آج ہی سے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف باجگزارپارٹیاں پاکستانی پارلیمان میں اپنی تنخواہ بڑھانے کے لئے بلوچ قومی تباہی اور نسل کشی میں شراکت دار بن کر ڈیتھ سکواڈز کی تشکیل کرکے جرائم کی فہرست میں اضافہ کررہے ہیں جنہیں بلوچ قوم کسی بھی صورت معاف نہیں کرسکتا۔ قومی مفادات کی حصول کے لئے بی این ایف ہمیشہ اس عہد کی تجدید کواپنے پروگرام کا ایک بنیادی جزو تسلیم کرتا ہے کہ قومی اتحاد ہمیں منزل تک پہنچنے اوربین الاقوامی سیاسی و سفارتی امداد حاصل کرنے کے لئے معاون ہوسکتا ہے لیکن اتحاد کی توسیع یا اتحاد کا حصہ بننے کے لئے انقلابی معیار اورپارٹی کی تنظیم بنیادی شرط ہے، جسے کوئی بھی تنظیم پورا کرکے اِس اتحاد کا حصہ بن سکتا ہے، بجائے اِس کے کہ ہم شخصیات پر انحصار کرکے قومی تحریک میں پارٹی جیسے اہم ستونوں کو نظر انداز کریں جو خود لیڈر اور شخصیات جنم دیتے رہتے ہیں۔بی این ایف کے پلیٹ فارم پر ہمارے قائدین نے قومی سیاست میں ادارتی اہمیت پرمبنی جس پالیسی کا تعین کیا تھا ہم آج تک جس پر قائم ہیں اورہماری اس پالیسی کے ناقدین بھی تمام تر اختلافات کے باوجود ادارتی سیاست کی اہمیت کو تسلیم کررہے ہیں یہ ہماری قائدین کی سیاسی بصیرت کا حاصل ہے ۔چیئرمین خلیل بلوچ نے مزید کہا کہ ہمیں ا پنی وسیع قومی مفادات کے تناظر میں اس امر کا بخوبی علم ہونا چاہئے کہ عالمی طاقتوں کی تاریخ یہی ہے کہ وہ نیشنلسٹ قوتوں کے بجائے کٹھ پتلیوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ نیشنلسٹ اپنی قومی مفادات پر کسی بھی عنوان پر مصلحت کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں اورآج ہماری عظیم قومی قربانیاں کسی طاقت کی غلامی یا پراکسی بننے کے لئے نہیں بلکہ اُس باوقار آزادی کے لئے ہیں جہاں ہم برابری کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ اپنی قومی معاملات طے کرسکیں لہٰذاہماری اتحاد کامحور کسی طاقت کو متوجہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی وسیع قومی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہے۔