آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں کو زیادہ اختیارات ملے ہیں۔ یہ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماء مرحوم غوث بخش بزنجو کا بنیادی مطالبہ تھا کہ آئین میں مشترکہ فہرست کو ختم کیاجائے اور اس میں شامل تمام اختیارات صوبوں کو دئیے جائیں ۔ پی پی پی حکومت کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب بلوچستان کے رہنماؤں کی اکثریت نے1973ء کے نام نہاد متفقہ آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا، ان میں محترمہ جینفر موسیٰ ‘ نواب خیر بخش مری اور ڈاکٹر عبدالحئی شامل تھے ۔ اس سبکی کو دور کرنے کے لئے وزیر قانون حفیظ پیرزارہ کو آئین ساز اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کرنا پڑا کہ دس سال بعد اس مشترکہ فہرست کو صوبائی فہرست میں شامل کیاجائے گا یعنی صوبوں کو زیادہ خودمختاری دی جائے گی مگر یہ معاملہ مارشل لاء اور فو جی حکمرانی کی وجہ سے طویل ہوگیا اور اس کو تیس سالوں کا طویل سفر کرنا پڑا ۔ جب آٹھویں ترمیم پاس ہوئی تو پاکستان کے تمام نیوز چینل نے اس خبر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا اور عوام کو یہ واضح اشارہ دیا کہ پاکستان کی مقتدرہ اس کو پسند نہیں کرتی۔ لہذا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنے بڑے واقعہ کو تمام نیوز چینل نے ایک حکم کے تحت بلیک آؤٹ کیا ۔ اب معاملات کچھ بہتر نظر آرہے ہیں اور 8ویں ترمیم پر عمل درآمد کے زیادہ واضح اشارے مل رہے ہیں کیوں کہ اس سے چھوٹے صوبے زیادہ خودمختار ہوں گے یعنی اب صوبوں کے اپنے وسائل پر حق تسلیم کیا جارہا ہے ۔ بلوچستان اللہ کی تمام نعمتوں سے مالا مال صوبہ ہے ہزاروں کلو میٹر طویل ساحل مکران ،وسیع و عریض زرخیز زمین اور معدنیات سے مالا مال ہے ۔ اب یہ حکومت بلوچستان پر منحصر ہے کہ کس برق رفتاری سے ان وسائل کا بہترین استعمال کرے گا اور اس کے ثمرات عوام الناس کو پہنچائے گا تاکہ بلوچستان سے غربت ‘ ناداری اور پسماندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔حال ہی میں سرکاری ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ جندران کے علاقے میں بہتربڑے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ۔ یہ ذخائر سوئی ‘ لوٹی اور پیر کوہ کے ذخائر سے بھی زیادہ بڑے بتائے جاتے ہیں اس طرح ریکوڈک کے ذخائر بھی ثابت ہوچکے ہیں دنیا کو یہ بھی معلوم ہے کہ سندھک اور بلوچستان میں خام لوہے کے ذخائر موجود ہیں اب یہی مناسب وقت ہے کہ ان معدنیات اور توانائی کے ذرائع کو عوام کے فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ سندھک پر چینی کمپنی سے معاہدہ ختم ہونے والا ہے ۔ اس معاہدے سے تحت بلوچستان کو کچھ نہیں ملا ۔ایک حصہ وفاق اور باقی دولت چینی لے گئے ۔ اب چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کی توثیق نہ کی جائے بلکہ حکومت بلوچستان ایسے انتظامات کرے کہ جس سے سندھک کے منصوبے کو صوبہ چلائے اور اس کے اربوں ڈالر کی کمائی بلوچستان کے عوام پر خرچ ہو اس کے لئے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں اور ہو سکے تو ایران سے بھی مدد حاصل کی جائے کیونکہ ایران میں اس قسم کا پلانٹ کام کررہا ہے جس کوایرانی خود چلا رہے ہیں۔ ہم ایک ایٹمی ملک ہیں لیکن سندھک اور ریکوڈک کو خود نہیں چلا سکتے یہ افسوسناک بات ہے کہ ایک کرپٹ افسر ریکوڈک کے معاملات کو گزشتہ بیس سال سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے رشوت کا حصہ متعلقہ اعلیٰ ترین حکام کو پہنچایاا ور منصوبے کا بیڑا غر ق کردیا ۔ پانچ کھرب ڈالر کا یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے کیونکہ سیاسی اکابرین نے بھی رشوت کھائی اور معاملہ ایک گریڈ 18کے افسر کے پاس رہا جس نے پورے ملک کو ایک مشکل میں ڈال دیا ۔ا ب یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ وسائل کا صحیح اور عوامی مفاد میں استعمال ہونا چائیے اس کے لئے موجود صوبائی انتظامیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے ماہرین کی خدمات دنیا بھر سے حاصل کرے اور اس کے لئے معاشی ترقی کا ایک الگ ڈویژن قائم کیاجائے جس کی سربراہ وزیراعلیٰ خود ہوں اور وہ سندھک‘ ریکوڈک ‘ خام لوہے اور دیگر ذخائر کو استعمال میں لائے بلکہ گوادر پورٹ کا مکمل منصوبہ بھی اس کے حوالے کیاجائے ۔ یہاں سے وفاقی وزارت منصوبہ بندی اور ترقیات کو بلوچستان دشمنی کی بنیاد پر صوبہ بدر کیاجائے اور منصوبہ بندی مقامی طورپر کی جائے ۔ جس میں ایم پی اے فنڈ کا خاتمہ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام نئی معاشی معاملات کے ڈویژن کے پاس ہوں ۔ جن 75افسران کو ان کے اپنے محکمہ کو واپس بھیجے گئے ہیں ان سب کو وہاں رپورٹ کرنے کا حکم دیا جائے ۔ موجودہ محکمہ منصوبہ بندی سے تمام منشی اور کلرک حضرات خصوصاً جو ذہنی طورپر کلرک ہیں دوسرے محکموں کو بھیجا جائے اور یہاں صرف ماہرین معاشیات اور منصوبہ بندی کو رکھا جائے جو برق رفتاری سے منصوبہ تیار کریں اور ان پر عمل درآمد کریں۔ اگر کہیں ایم پی اے حضرات مزاحمت کریں تو اسمبلی کو فوری طورپر توڑا جائے تاکہ عوامی مفادات کے تحفظ کو اولیت حاصل ہو اور ذاتی مفادات کا مکمل خاتمہ ہو ۔