|

وقتِ اشاعت :   December 27 – 2016

سسی پیک تو بلوچستان میں ہے مگر ترقی پنجاب میں ہورہی ہے ؟ یہ سوا ل گوادر کے ایک طا لبہ نے خادم ۱علیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے پو چھا ۱س سو۱ل کا جواب دینے سے تو خادم ۱علیٰ قاصر رہے مگر ایک قہقہے کے بعد خاموشی اختیار کرلی۔کچھ عرصہ پہلے خادم اعلیٰ پنجاب نے چین کے ایک بینک سے قرض لے کر اورنج ٹرین منصوبہ شروع کیا بینک سے لیا ہوا لون کا پیسہ واپس بھی تو کرنا ہوتا ہے مگر خادم اعلیٰ نے رقم کی واپسی کے بجائے اپنی ذہانت کو بروئے کار لاکر اس منصوبے کو سی پیک کا حصہ قرار دیا جو کہ کسی طور پر بھی سی پیک کا حصہ نہیں تھا۔ پنجاب کی ترقی خوش آئند بات ہے پاکستان کا کوئی بھی صوبہ ترقی کرے یہ اچھی بات ہے کیونکہ تمام صوبے فیڈریشن کے حصے ہیں لیکن زیادہ متاثرہ صوبے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ترقیاتی کام زیادہ سے زیادہ شروع کرنے چاہییں۔سی پیک تو بلوچستان میں ہے یہ سوال کاپہلا حصہ ہے سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں صرف ایک سڑک تعمیر کی جارہی ہے اور سی پیک کا مرکز گوادر ہے وہاں پر پینے کا صاف پانی بھی مو جود نہیں بلکہ وہاں تو راتوں کو پینے کے صاف پانی کے گیلن چوری کر لیے جاتے ہیں۔ اب تک تو کوئی بھی ترقیاتی منصو بہ بلوچستان کو ترقی کی ڈگر پر نہیں لا سکا،چاہے وہ سوئی گیس ہو یا سیندک یا ریکوڈک پروجیکٹ ۔ 1952 ؁ میں سوئی سے دریافت ہونے والی قدرتی گیس کوئٹہ ،سبی، نصیر آباد، اور، جعفر آباد کے علاوہ بلوچستان کے کسی دوسرے علاقے میں نہیں پہنچ سکی حالانکہ اس گیس سے تو خود سوئی کے عوام بھی صحیح معنوں مستفیدنہیں ہو سکے۔ اب آتے ہیں سوال کے دوسرے حصے کی طرف کہ ترقی تو پنجاب میں ہورہی ہے پنجاب حکومت جس پالیسی پر عمل پیرا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس سے بلوچستان کے عوام بے خبر ہیں پنجاب بھر سے نوجوانوں کو چائنہ کی زبان سیکھنے کیلئے چائنہ بھیجا جارہا ہے جو دو سال کے بعد واپس آکر چائنیز کے ساتھ بطور ترجمان گوادرمیں کام کریں گے اور مقامی بلوچ نوجوان ملکی او ر غیر ملکی مہمانوں کی حفاظت اور چوکیداری کے فرائض سرانجام دیں گے اور مقامی بلوچوں سے مالی،نائب قاصد اور چوکیداری کا کام لیا جائے گا۔گزشتہ دنوں وزیرِاعظم پاکستان جناب میاں نواز شریِف صاحب نے جب گوادر بندرگاہ پر پہلے تجارتی قافلے کا افتتاح کیا تو کہا کہ نیا بلوچستان بن رہا ہے تو نیا پاکستان بھی بنے گا۔نئے بلوچستان کے نام پر ایک دفعہ پھر بلوچ قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے کیونکہ پچھلے 70سالوں سے بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے ترقی دینے کے بجائے ترقی سے دور کر دیا گیا ہے .46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری واقعی گیم چینجر ہو سکتا ہے اگر اس رقم کودرست سمت میں استعمال کیا جائے تو نیا بلوچستان اور نیاپاکستان بن سکتا ہے اور با لخصوص بلوچستان میں سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کی تعمیر کا کام ہو یا پھر انفراسٹر کچر، تعلیم کا میدان ہو یا پھر صحت کا شعبہ اس سرمایہ کاری سے بلوچستان کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے اگر نیت صاف ہو اورکام سنجیدگی سے کیا جائے ۔ بلوچستان کے سکولوں میں جدید نظام تعلیم متعارف کرایا جائے، صحت کے شعبے میں بہتری لائی جائے، بلوچستان کے نوجوانوں کو چائنہ بھیجا جائے تا کہ وہ چائنیز زبان سیکھ کر بلوچستان میں چائنیز کے ساتھ کام کرسکیں ،HECسکالرشپ میں بلوچستان کے طلباء اور طالبات کو خصوصی رعا یت فراہم کی جائے اور بلوچستان کے طلبا کا HEC کوٹہ بڑھایا جائے تاکہ بلوچستان کے ساتھ ماضی میں کیئے گئے محرومیوں کا ازالہ ممکن ہو۔ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے اس مر تبہ وفاقی حکومت بلوچستان پر زیادہ توجہ دے تو ترقی ہوسکتی ہے اور وزیر اعظم پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس منصوبے کو یعنی چائناپاکستان اکنامک کوریڈور کو چا ئنا پاکستان کوریڈور ہی رکھے نہ کہ وہ اسے ’’چائنا پنجاب اکنامک کوریڈور‘‘ بنائے۔