نیب کے سربراہ نے بلوچستان میں خزانہ اسکینڈل کی تفصیلات بتائیں اور پلی بارگین کے قانون کی نہ صرف تشریح کی بلکہ اس کا زبردست دفاع کیا اور اس کا یہ جواز پیش کیا کہ یہ دوسرے ممالک میں بھی رائج ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک اچھا قانون ہے اور اس پر عمل درآمد کیاجارہا ہے ۔ ساتھ میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی دولت جلد واپس حاصل کی جارہی ہے ۔پورے ملک کے عوام اور ذمہ دار میڈیا نے نیب کے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی کہ اس نے بلوچستان کے خزانہ اسکینڈل میں پلی بارگین کو زیادہ اہمیت اور اولیت دی ۔ اس میں کسی نہ کسی کے مفادات ضرور وابستہ ہوں گے ۔ پہلی بات یہ کہ نیب نے یہ نہیں بتایا یہ چھ ارب روپے کس حاکم اعلیٰ کے حکم سے ریلیز ہوئے جس کو سیکرٹری خزانہ نے اپنے ذاتی خزانہ اور خالد لانگو کے فرنٹ مین کے حوالے کیے ۔ظاہر ہے کہ یہ سیکرٹری خزانہ کا ہی حکم ہو سکتا ہے کیوں کہ مشیر خزانہ کے پاس اس قسم کے اختیارات ہی نہیں ہیں کہ وہ صوبائی خزانے سے اپنی ذات کے لئے چھ ارب روپے نکالے اور اس کا دوسرا حصہ بانٹ دے ۔ لہذا اس صورت حال میں دو طاقتور ترین حکمران وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سیاسی حکمران کی حیثیت سے اور چیف سیکرٹری انتظامی حکمران کی حیثیت سے اس مقدمہ میں ملوث معلوم ہوتے ہیں، اور ان کو بچانے کے لیے شاید نیب نے پلی بارگین کا ڈرامہ رچایا تاکہ مقدمے کی کارروائی اپنے منقطی انجام کو نہ پہنچ سکے ۔ اس لیے بعض عناصر اس پلی بارگین کی حمایت اس لیے کررہے ہیں اس میں بلوچستان کے انتہائی قیمتی اثاثے ‘ سیاسی اور انتظامی ‘ دونوں کے ملوث پائے جا نے کے خدشات ہیں۔ مشیر خزانہ کا بھی اس پارٹی سے تعلق ہے جس کے کردار کو عوام الناس شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ مقدمہ مکمل طورپر چلے اور یہ قیمتی اثاثے اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت کریں کہ وہ بلوچستان کے خزانہ اسکینڈل میں ملوث نہیں ہیں ۔ واضح رہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کے پہلے تین سالوں میں انہی پارٹیوں کی حکمرانی کے دوران بلوچستان کو 800ارب روپے وفاقی حکومت اور این ایف ایوارڈ کی طرف سے وصول ہوئے اتنی بڑی رقم کا ایک افسر کے گھر سے نکلنا بہت بڑی بات ہے جس میں صوبائی اسمبلی کارکن اور مشیر خزانہ بھی ملوث پایا گیا اور گرفتار ہوا ۔سوشل میڈیا میں اس پر زبردست بحث چل رہی ہے اور ہر طرف پلی بارگین کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے بھی پلی بارگین کی شدید ترین الفاظ میں نہ صرف مخالفت بلکہ مذمت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ چور دروازے سے ایک غلط عمل ہے اس کو جائز قرار دینا کرپشن کی حمایت ہے اربوں اور کھربوں کا کرپشن کرنے والوں کے دامن صاف ہوجاتے ہیں ۔ یہ ڈکٹیٹر کا دیا ہوا نظام ہے اس کو ختم کیاجائے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے یہ قانون بنایا تھا چونکہ وہ ایک فوجی آمر تھے ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ بغیر پارلیمان اور منتخب حکومت کے وہ اپنی فوجی آمریت بر قرار رکھیں گے ۔اچانک عدالتی حکم آیا جس میں انتخابات کے ذریعے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کو کیا گیا ۔ نیب کا یہ قانون اس کی اقتدار کو مینڈیٹ دینے کے لئے استعمال میں لایا گیا ۔ اکثر سیاسی مخالفین گزشتہ دور خصوصاً نوازشریف کے دور حکومت میں کرپشن میں ملوث تھے ان پر مقدمات بنائے گئے اور بعد میں معافی تلافی کے بعد مقدمات واپس لیے گئے اور ان کو سرکاری مسلم لیگ میں شامل کرایا گیا ۔ اس کی وجہ سے پورے پاکستان ‘ وفاق اور چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کی حکومتیں بن گئیں ساتھ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز بھی جاری کیے گئے جو ان کے ذاتی استعمال میں آئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ نیب کا قانون عوام کی نظرمیں متنازعہ ہے خصوصاً پلی برگین جس میں مقصد نیب کے افسران کو بھی حصہ ملتا ہے کہ انہوں نے کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔ پورا ملک اس پلی بارگین کا مخالف ہے ۔ پہلے سپریم کورٹ ،بعد میں سیاسی رہنما اور اب پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔ اگر کرپشن کو ختم کرنا اور اس کو کم ترین معیار تک پہنچانا ہے تو کرپٹ عناصر کو عمر بھر قید میں رکھیں ۔ بلا شک چین کی طرح انہیں سزائے موت نہ دیں مگر زندگی بھر کرپٹ عناصر جیل میں رہیں تاکہ وہ کرپشن کی ایک زندہ مثال رہیں ۔ ان کی تمام جائیدادیں ضبط کی جائیں اور جو جج کرپٹ عناصر کو راحتیں فراہم کرے اس کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی جائے ۔