|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2016

کوئٹہ : میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ نے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے بجٹ کو منظوری کے لئے ڈویژنل کوآرڈنیشن کمیٹی کو بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن کونسلران کی جانب سے بجٹ اجلاس سے قبل کونسلران کو لاکھوں روپے دینے ، انہیں بینکاک بھیجنے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں جو غیر انسانی ، غیر سیاسی اور غیر اسلامی فعل ہے ، کونسل اجلاس کے دوران ٹینشن کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ کو منظوری کے لئے ڈی سی سی بھجوایا جارہا ہے تاکہ جمعہ کو ہونے والے اجلاس کی نوبت ہی نہ آئے ۔ کوئٹہ پریس کلب میں کونسلران جمشید دوتانی ، عمر قریش ، حاجی صلاح الدین ، عابد لہڑی ، روزی خان کاکڑ ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں اورمیڈیا نمائندوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوا کرتا ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ میڈیا سے بامقصد گفتگو کی ہے بعض لوگ زندہ رہنے کے لئے بیانات دے کر میڈیا کا سہارا لیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بطور میئر چارج سنبھالا تو میٹروپولیٹن کارپوریشن میں کوئی اپوزیشن نہ تھا تاہم بعد ازاں غیر ضروری فرمائشوں اور خواہشات کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ میرے لئے پورا کرنا ممکن نہ تھا ۔ میں نے گزشتہ سال کے نان ترقیاتی بجٹ میں بھی 70 سے 75 کروڑ روپے کی بچت کرائی ہے اب لوٹ مار اور کرپشن کرنے والے عناصر پریس کانفرنسز اور دیگر کے ذریعے میرے خلاف بے بنیاد واویلا کررہے ہیں مسلم لیگ (ن) ، وحدت مسلمین ، نیشنل پارٹی کے کچھ کونسلران بھی ان کے پاس ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر مشتمل سپریم کونسل بنائی گئی تھی اور بجٹ سمیت مختلف حوالوں سے انہی کے ہی مشاورت سے فیصلے ہورہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے بلدیاتی اداروں کے لئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی جس میں کوئٹہ کے لئے 50 کروڑ روپے پی ایس ڈی پی میں شامل ہوئے اس کی تقسیم ڈیلی ویجز ملازمین اور کمیٹیاں کے حوالے سے بھی انہی کی مشاورت لی گئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ الاٹمنٹ ، فنڈز اور دیگر حوالوں سے مذکورہ کونسلران کی خواہشات پوری نہ ہوسکی تو وہ ناراض ہوئے اور تقاضا کیا کہ بس اب آئندہ 2 سال ان کی باری ہے حالانکہ موجودہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق گورنر اور میئر کوئٹہ کے عہدے پشتونخوا میپ کو دیئے گئے ہیں مگر اب یہ باغی مجھ سے استعفیٰ طلب کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر کلیم نے کہا کہ مجھ پر میٹروپولیٹن کارپوریشن کی اثاثہ جات کی غیر قانونی الاٹمنٹ ، عارضی ملازمین کی بھرتی میں اقرباء پروری اور دیگر کے الزامات لگائے گئے ہیں جو بے بنیاد ہیں اگر وہ ثبوت پیش کریں تو میں مستعفی ہوجاؤں گابلکہ ہم نے تو 1945 سے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اثاثہ جات کو معلوم کرنے کے لئے ریٹائرڈ قانون گوہ اور پٹواریوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے کام بھی شروع کرادیا ہے اس وقت جب کوئٹہ شہر کی آبادی 5 لاکھ تھی اس وقت تک میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ٹب ، لیٹرین اور دیگر کی تعداد سینکڑوں تھیں جو اب درجن بھر رہ گئی ہے مذکورہ عناصر مجھ سے سابقہ میئر اور ڈسٹرکٹ ناظم کی طرز پر فرمائشیں کرتے ہیں جو ممکن نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوا میپ کے اپنے کونسلران کی تعداد 32 سے 33 ہیں جبکہ آزاد ، وحدت مسلمین اور مسلم لیگ کے بھی کونسلران کی ہمیں حمایت حاصل ہیں یہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لاسکتے ۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کونسلران کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ بلدیاتی نظام کو کوئٹہ میں فیل کیا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے گرانٹ ان ایڈ اور دیگر مد میں ملنے والے فنڈز کی امید سے 5 ارب روپے کی بجٹ بنائی لیکن بعد ازاں مشاورت سے اپنے وسائل کے تحت بجٹ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کی آفیشل اور دیگر بھی سیکورٹنی کرچکے ہیں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن کونسلران کی جانب سے غیر انسانی ، غیر اخلاقی ، غیرسیاسی اور غیر اسلامی طرز عمل اپنا کر کونسلران کو نہ صرف لاکھوں روپے دینے کی لالچ دی گئی بلکہ انہیں بینکاک بھیجنے کے بھی وعدے کئے گئے جنہوں نے بات نہیں مانی انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اس سلسلے میں کاسی قبیلے کے کونسلر عنایت کاسی اور ایک آباد کار کونسلر کی جانب سے سب کے سامنے اس بات کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بجٹ اجلاس کے دوران حزب اقتدار اور اپوزیشن دونوں کے اکتالیس اکتالیس ووٹ پڑے تاہم ڈپٹی میئر نے ووٹ کاسٹ نہ کیا جس کی وجہ انہیں معلوم نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ٹینس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بطور میئر میں نے بلدیاتی ایکٹ 2010 کے تحت بجٹ ڈویژنل کوآرڈنیشن کمیٹی کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد بجٹ اجلاس کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ ایک اور اجلاس ہوا تو اس میں خون خرابہ ہوگا جبکہ جمشید دوتانی نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے پشتونخوا میپ کی خاتون کونسلر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ہماری ممبر نہیں بلکہ ہم نے جعل سازی کی ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہم اس کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔