|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2016

توقع کے مطابق نئے مالی سال کا میٹروپولٹین کا سالانہ بجٹ پاس نہ ہو سکا اس میں ایک بات صاف اور واضح طورپر سامنے آئی کہ بر سر اقتدار گروہ کی اکثریت ایوان سے ختم ہو چکی ہے جس کا دعویٰ وقتاً فوقتاً اپوزیشن کے اراکین کرتے رہے ہیں ۔ کل کے اجلاس میں انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ بر سر اقتدار گروہ اکثریت کھو چکی ہے اور اب ان کو بہانہ بازی کے بجائے استعفیٰ دینا چائیے ۔ دوسری جانب بلوچستان میں اتحادیوں کی حکومت میں نہ ڈاکٹر مالک کے دور میں اس قسم کے اختلافات سامنے آئے اور نہ ہی نواب ثناء اللہ زہری کے دور میں ۔ پی ایم اے پی سے مفاہمت قائم رکھی گئی گوکہ دونوں وزرائے اعلیٰ کو کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ان دونوں نے اتحاد کو بر قرار رکھا گوکہ پی ایم اے پی کے وزراء کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے یہ دونوں سربراہان حکومت کی برد باری اور دوراندیشی ہے کہ انہوں نے تمام معاملات کو قابو میں رکھا ۔ کوئٹہ میٹرو پولٹین کارپوریشن کا معاملہ خراب کرنے میں خود مئیر صاحب کا ہاتھ ہے ۔ وہ اپنی پوری ٹیم اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل نہ سکے اورمن مانی کارروائیاں کرتے رہے اور عوام الناس کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ ایک منتخب عوامی نمائندہ نہیں ایک فوجی آمر کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ یہ جوابی الزام ان کو زیب نہیں دیتاکہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اپوزیشن نے اپنے حقوق کے بجائے ان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کو بیرونی ملکوں کے دوروں پر لے جائیں یا ان سے کروڑوں روپے کی رشوت طلب کی گئی تھی ۔ یہ تمام الزامات جھوٹے اور من گھڑت معلوم ہوتے ہیںیہ الزامات مئیر کوئٹہ نے اس وقت لگائے جب پانی ان کے سر کے اوپر سے گزر چکا تھا اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ اقتدار اپنے اتحادیوں کے حوالے کریں کیونکہ وہ اکثریت کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ اور عزت بھی کھوچکے ہیں اس لیے ان کا عہدے پر برقرار رہنا عوامی رائے عامہ کی توہین ہے وہ اب بجٹ پاس نہیں کر اسکتے اور اس کو دوسرے اداروں سے پاس کرانے کے چکر میں ہیں جو بادی النظر میں نا ممکن نظر آتا ہے ۔