پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کی ایک ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز ایف پی سی سی آئی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں غیر ملکیوں کی آمد سے مقامی بلوچ آبادی آئندہ برسوں میں اقلیت میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔
اس رپورٹ میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے یا سی پیک کے اس علاقے پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس پروجیکٹ کے دور رس اقتصادی اور سیاسی اثرات مرتب ہو نگے ۔حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس پروجیکٹ کے مقامی معیشت پر منفی اثرات کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے۔
ناقدین کا کہنا ہے بلوچستان کی آبادی پہلے ہی بہت کم ہے اور اگر زیادہ تعداد میں غیر ملکی آئیں گے تو یہ خوش آئیند اور حوصلہ افزا نہیں ۔بلوچستان کی حقوق کی ایک سرگرم کارکن ثنا بلوچ سوشل میڈیا پر لکھتی ہیں کہ آبادی میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور اب صوبے میں مقامی بلوچوں کی تعداد برائے نام ہی رہ گئی ہے ۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے مختلف منصوبوں پر کام کی رفتار میں تیز ی آرہی ہے۔ چھالیس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت سے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت سٹرکیں، ریلوے، مواصلات اور بجلی کے منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں اور یہ بندرگاہ چین کے علاقے سنکیانگ اور بین الاقوامی منڈیوں کے درمیان ایک اہم دروازے کی حیثیت رکھتی ہے۔
ایف پی سی سی آئی تنظیم کے ایک عہدےدار اور صنعت کار محمد ریاض خٹک کا کہنا ہے کہ مقامی صنعت کو وہ سہولتیں میسر نہیں جو چینی صنعت کاروں کے پاس ہیں ۔محمد ریاض کا کہنا ہے چین سے آنے والی پروڈکٹ مقامی طور پر بننے والی پروڈکٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ سستی بھی پڑتی ہیں ۔
رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور سی پیک کے تحت بننے والے اقتصادی زون بنانے کا کام بھی نجی سکیٹر کے حوالے کیا جائے ۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بلوچستان ایف پی سی سی آئی ایگز یٹوکمیٹی کے ایک رکن انجنیئر دارو خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین سرکاری وفد آنے جانے کی بات ہو یا گوادر میں آنے والی تبدیلی کا معاملہ ہو اس پر بلوچستان کی حکومت تاجروں کو اعتماد میں نہیں لیتی ۔
انجنیئر دارو خان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے جو بورڈ آف انوسٹمنٹ تشکیل دیا ہے اس میں بزنس کمیونٹی کو شامل نہیں کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گوادر میں جو ایکسپورٹ پروسسنگ زون ہے اسے جلد از جلد بحال کیا جائے اس کے علاوہ مغربی راستوں پر صنعتی زون اس وقت نہیں بنائے جا رہے اس پر بھی کام ہو نا چاہیے ۔
پاکستان کو حکومت مخالف جماعتوں کی جانب سے اس تنقید کا سامنا ہے کہ اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ پنجاب کی جانب منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکومتی عہدے دار ان الزامات کی سختی سے ترديد کرتے ہیں۔
تاہم اس رپورٹ میں سی پیک کے مثبت اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے اس سے بے روزگاری اور توانائی کے بحران کا خاتمہ ہو گا ۔ پاکستانی راہنماؤں کو بھی توقع ہے کہ یہ راہداری خطے کے اربوں لوگوں کے لیے ترقی اور خوش حالی لائے گی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پیش کی گئی ہے جب جمعرات کے روز بیجنگ میں پاکستان اور چینی عہدے داروں کے درمیان ایک ملاقات ہوئی ہے ۔ سیکیورٹی اور سیاسی خدشات کے باوجود چینی اور پاکستانی عہدے دار کہتے ہیں کہ سی پیک سے منسلک منصوبے عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور ان میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ابتدائی 24 میں سے 16 منصوبوں پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے جو 2018 تک مکمل ہوجائیں گے اور ان سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں
با شکریہ وائس آف امریکہ اور نیلوفر مغل