کوئٹہ : پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین عبدالمجید خان اچکزئی نے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں 100 ڈیمز تعمیر کئے گئے ہیں ان کا آڈٹ کیا جائیگا جو ڈیمز بنائے گئے ہیں وہ معیار کے مطابق نہیں ہے اس میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے جو بھی ملوث پایا گیا کسی کو بھی معاف نہیں کیا جائیگا نئے20 ڈیمز ایکنک سے منظور ہوئے ہیں لیکن رقم مختص نہیں کئے گئے جس کا دوبارہ آڈٹ کیا جائیگا یہی کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لوکل گورنمنٹ کرپشن کیس میں نیب چیئرمین کی جانب سے سابق سیکرٹری خزانہ کو وعدہ معاف گواہ بنانا کرپشن کو فروغ دینے کی کوشش ہے سابق مشیر خزانہ پر نیا ریفرنس دائر کر نا چیئرمین نیب نہیں کر سکتاکرپشن صوبے میں ہوئی اور نیب چیئرمین کس طرح ہمارے صوبے میں ہونیوالے کرپشن کا حساب لیں گے وفاق صوبے کے ساتھ ہونیوالے مذاق بند کرے اٹھارویں ترمیم کے بعد جو بھی معاہدے ہو تے ہیں وہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار کے اختیار میں ہے حبکو اور پی پی ایل کے ساتھ ہونیوالے معاہدوں میں حکومت کی مرضی کو شامل نہیں کیا گیا اور وفاق اپنے شیئر دینے کو تیار نہیں اور ہمارے وسائل کو بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جس کی ہم کسی صورت اجازت نہیں دینگے ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ لوکل گورنمنٹ میں کرپشن نہیں ہوئی بلکہ اس کے علاوہ دیگر محکموں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے چیئرمین نیب کی جانب سے لوکل گورنمنٹ کرپشن کیس میں مختلف تضادات بیانات سمجھ سے بالاتر ہے اور چیئرمین نیب اپنے آپ کو بچا نے کے لئے ہر روز نئے بیانات دیتے ہیں سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو سابق مشیر خزانہ میر خالد خان لا نگو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا نا سازش ہے اور اس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دینگے اس کیس میں سابق مشیر خزانہ کو نہیں بلکہ سابق چیف ایگزیکٹو اور موجودہ چیف سیکرٹری بھی ملوث ہے ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا رہا نیب کی جانب سے لوکل گورنمنٹ کرپشن کیس میں2 ارب روپے کرپشن نہیں ہوئی بلکہ40 ارب روپے کرپشن ہوئی ہے اور محکمہ خزانہ سے آدھا ریکارڈ جو ملا ہے ان میں14 ارب روپے ہے اس کے علاوہ جی ایس ٹی بھی شامل نہیں ہے جبکہ غیر ترقیاتی فنڈز کو ترقیاتی فنڈز میں شامل کیا گیا ہے اس میں بھی اربوں روپے کرپشن ہوئی ہے سابق مشیر خزانہ اتحادی حکومت کا حصہ ہے اور صرف سابق مشیر خزانہ کو نیب کی جانب سے ملزم قرار دینا جمہوری روایات کی منافی ہے پنجاب نیب کی جانب سے چیئرمین نیب کے حق میں بیان دینا مضحکہ خیز ہے یہ کوئی سیاسی پوسٹ نہیں بلکہ سرکاری پوسٹ ہے آرڈیننس 25-A کے تحت جو پلی بار گین نیب کر رہی ہے یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے انہوں نے کہا کہ کرپشن ہمارے صوبے میں ہوئی اور ریکوری بھی ہم کرینگے نیب کو اس کی اجازت نہیں دینگے نیب چیئرمین اپنے بیانات کی وضاحت نہیں کر سکتے جس دن ڈی جی نیب کو طلب کرینگے تمام تر صورتحال واضح ہو جائیگی