|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2017

کوئٹہ ( آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ہیومین رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ اور پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن غلام نبی مری نے گزشتہ روز ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمان ، حسن نکی ، خوشحال خان خٹک سے ملاقات کی اور بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال اور گفت وشنید کی پارٹی رہنماؤں نے ایچ آر سی پی کے وفد کو بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سے آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ سی پیک افغان مہا جرین مردم شماری سے متعلق بلوچ قوم کے جائز خدشات اور تحفظات کو دور کر نے کی بجائے حکمران نظرانداز کر تے چلے آرہے ہیں جس کے نتیجے میں بلوچ قوم میں پائے جانیوالے احساس محرومی ، نا انصافیاں جنم لے رہے ہیں بلوچستان میں آج بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کا دور دورہ ہے موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت مکمل طور پر فورسز کے سامنے بے بس وبے اختیار ہے آج بھی بلوچستان سے متعلق تمام مسائل اور معاملات کو بااختیار قوتیں چلا رہے ہیں بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے جو کہ مذاکرات اور گفت وشنید کے بجائے طاقت کے زور پر یہاں کے مسائل کو حل کر نے اور دبانے کی کوشش کیا جارہا ہے ہمارے ناعقبت اندیش حکمرانوں نے ماضی کی تلخ تجربات اور بحرانات سے سب حاصل کر نے کی باوجود آج بھی بلوچستان میں بلوچ قوم کے حقیقی قیادت کا راستہ روکنے اور دیوار سے لگانے کی سازش کیا جا رہا ہے تاکہ بلوچ قوم کے حقیقی مسائل قومی واک واختیار ، ساحل ووسائل پر اصولی موقف اپنا نے والوں کا راستہ روکنے کے لئے جعلی و ڈمی لو گوں کو اقتدار کی راہ ہموار کر کے یہاں کے عوام پر مسلط کیا جا سکے تاکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے توسیع پسندانہ قبضہ جمانے والے آمرانہ لوٹ وکھسوٹ کی پالیسیوں کو پروان چڑھا سکے انہوں نے کہا کہ 2013 میں بلوچستان میں جس طرح جعلی الیکشن کرائے گئے ان کے نتیجے میں آج کی صوبائی حکومت بلوچستان عوام کے مسائل اور حکومتی امور کو چلانے میں مکمل طورپر ناکام ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں 40 ارب روپے کی کرپشن اور یکے بعد دیگرے سانحانوں میں19 ارب اور24 روپے کا لیپس ہونا حکمرانوں کی نا اہلیوں کی منہ بولتا ثبوت ہے اور حکمران جماعتوں میں ذاتی مراعات ومفادات پر رسہ کشی کی جنگ اور عوام کی فلاح وبہبود پر مکمل طورپر خاموشی اظہار تعلقی سے یہاں کے عوام بخوبی وقف ہے انہوں نے کہا کہ آج بھی بلوچستان میں امن وامان کے حالات پہلے سے بد تر ہے آٹھ اگست کو سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ، 24 اکتوبر کو پی ٹی سی کالج میں دالخراش واقعہ ، شاہ نورانی میں بے گناہ لو گوں کی قتل وغارت گری اور بلوچ علاقوں میں آئے روز کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ، اغواء برائے تاوان چادر اور چاردیواری کی تقدس کی پامالی اورچند میلوں پر ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنیوالوں اداروں کی سرچ آپریشن اور دیگر مسائل سے یہاں کے لو گوں کو سامنا ہے انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان کی مسائل پر الیکٹرونک میڈیا کی مکمل پابندی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان مکمل طور پر ملک کی سطح پر دیگر علاقوں سے کٹ چکا ہے تعلیم ، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے سی پیک میں یہاں کے لوگوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے سی پیک گوادر میں بن رہا ہے لیکن گواد رکے عوام آج بھی پینے کے صاف پانی کے بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں گوادر کے نام پر تمام فنڈز اور مراعات پنجاب میں منتقل اور وہاں پر ترقی وخوشحالیوں کے منصوبے جاری وساری ہے بی این پی ترقی وخوشحالی کے ہر گز مخالف نہیں ہے لیکن یہ کونسا انصاف ہے کہ بلوچستان کے غربت اور پسماندگی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کے اوصاف سے آخری لکیروں میں بدترین استحصال کے شکار ہے گوادر میں بڑھتی ہوئی آباد کی للغار سے گوادر نہیں بلکہ بلوچستان میں ڈیموگراف چینج آئیگا اسے روکنے کے لئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ گوادر میں آنے والے سرمایہ کاروں اور دیگر مراعات لینے والوں کو ووٹ ، شناختی کارڈ ، لوکل کا سرٹیفکیٹ بنا نے کا حق نہ ہو اور گوادر میں سرمایہ کرنے کے لئے مقامی افراد کی شراکت کو لازمی اور یقینی بنایا جائے اور افغان مہا جرین کی موجودگی میں مردم شماری سے بلوچستان مکمل طور پر آبادی کے حوالے سے تبدیل ہو گا لہٰذا مردم شماری سے پہلے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہا جرین کی باعزت انخلاء کو یقینی بنایا جائے اور ان کے تمام جعلی دستاویزات کو منسوخ کیا جائے اور آمر دور کے بلوچ علاقوں سے ہجرت کرنے والے لاکھوں بلوچوں کی اپنے آبائی علاقوں میں آباد کاری کو یقینی بنایا جائے اور بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر کیا جائے اور 60 فیصد نادرا میں بلوچوں کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہوئی ہے اسے ہنگامی بنیادوں رجسٹریشن کرایا جائے اور بلوچستان کی سیاست میں اداروں کی مداخلت کو بند کیا جائے اور بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی ، فرقہ و اریت کو جنہیں ہمیشہ بااختیار قوتوں نے بلوچ قومی سوال واک واختیار کی مسئلے کو کاؤنٹر کر نے کے لئے اور حقیقی قوم وطن دوست قوتوں کا راستہ روکنے کے لئے مذہبی جنو نیت سوچ کو پروان چڑھایا گیا اس طرز سیاست کی بیخ کنی کیا جائے تاکہ بلوچستان کی سیاست میں بہتری آجائے اور لوگوں میں پائے جانیوالے احساس محرومی اور پسماندگیوں کا اداراک ہو سکے ۔