|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2017

سی پیک کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بعض فیصلے کیے گئے اس میں تیس نئے منصوبوں کو سی پیک میں شامل کیا گیا ہے، ان میں بلوچستان کے بارہ اور سندھ کے تین منصوبے ہیں۔شاید پہلی بار ہے جب تین چھوٹے اور معترض صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا ویسے تو اکثر اجلاسوں میں شہبار شریف صاحب برا جمان نظر آتے ہیں اور باقی صوبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں اس کے باوجود کہ گوادر بلوچستان میں ہے ۔ پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبوں کو سی پیک کے حوالے سے شکایات تھیں کہ یہ صرف اور صرف صوبہ پنجاب کے لئے ہے جہاں پر چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور دیگر صوبوں کو ہر طرح سے نظر انداز کیاجارہا ہے ۔ اس پروپیگنڈے کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے شاید ان تین وزرائے اعلیٰ کو بھی سی پیک کے اجلاس میں مدعو کیاگیا جس میں سی پیک میں تیس نئے منصوبے شامل کیے گئے ۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ ان تمام منصوبوں کو سی پیک میں کیوں شامل کیا گیا ہے، کیا چین کی امداد خصوصاً مالی اور تکنیکی امداد سے ان منصوبوں کومکمل کیاجائے گا یا یہ وفاقی حکومت کے مصنوبے ہیں اور ان کو صرف اور صرف نام کے لئے سی پیک میں شامل کیا گیا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف پروپیگنڈا کرنا ہے ۔ ان تمام منصوبوں میں چین کا کیا کردار ہے چین کتنی معاونت فراہم کررہا ہے ان منصوبوں پر کتنی لاگت آئے گی کیا ان منصوبوں کے لئے چین امداد یا قرضہ فراہم کررہا ہے اور یہ منصوبے کب مکمل ہوں گے؟ ان تمام تفصیلات سے عوام الناس بے خبر ہے ۔ البتہ گوادر سے متعلق ایک ہی منصوبہ کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کو چین کے قرضے اور تکنیکی تعاون سے مکمل کیاجائے گا وہ ہے گوادر بندر گاہ میں توسیع کا منصوبہ۔ اس کے تحت گوادر بندر گاہ میں پانچ نئے برتھوں کا اضافہ کیاجائے گا۔ چین نے گوادر بندر گاہ کے پہلے تین برتھ 2006میں مکمل کیے تھے اور اس کو حکومت پاکستان کے حوالے کردیا تھا ۔ ہونا تو یہ چائیے تھاکہ اس وقت چین کی کمپنی کو دوسرے مرحلہ کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی 2006ء میں دے دیا جاتا تو اب تک گوادر بندر گاہ کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوجاتا لیکن صدر پرویزمشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے درمیان لوٹ مار کے معاملات کی وجہ سے چین کو گوادر بدر کردیا گیا اور اس کی جگہ پر شوکت عزیز دبئی پورٹ اتھارٹی اور پرویزمشرف سنگاپور پورٹ اتھارٹی کو لانا چاہتے تھے صدر پاکستان زیادہ طاقتور تھے انہوں نے کرپشن کی یہ جنگ جیت لی معاملات سنگا پور پورٹ اتھارٹی کے سپرد کر دئیے گئے ۔پھر چند سال بعد سنگا پور پورٹ سے لے کر دوبارہ چینی کمپنی کے حوالے کیا گیا تب جا کر 2016ء کے آخری ہفتے میں یہ اعلان کیا گیا کہ گوادر پورٹ میں پانچ نئی بھرتیں چینی کمپنی تعمیر کرے گی ،باقی تمام گیارہ منصوبوں سے متعلق تفصیلات کا انتظار ہے کہ کون سا منصوبہ Mouہے اور کس منصوبے پر منصوبہ بندی چین کرے گی۔ جہاں تک دو سڑکوں کے منصوبوں کا تعلق ہے اس پر حکمران اظہار رائے کریں کہ ماشکیل ‘ نوکنڈی ‘ پنجگور کا سی پیک سے کیا تعلق بنتا ہے؟ یا بسیمہ ‘ خضدار شاہراہ ‘ شاید یہ دونوں منصوبے این ایچ اے کے ہیں اور حکومت کا ادارہ ہے کہ ان سڑکوں کی تعمیر این ایچ اے یا ایف ڈبلیو او کے بجائے چین کی کمپنیوں سے کرائی جائے، اس سے متعلق تفصیلات کا انتظار ہے ۔جہاں تک خضداراور بوستان صنعتی علاقوں کا تعلق ہے ۔ یہ دونوں صوبائی منصوبے ہیں اور گزشتہ چالیس سالوں سے زیر تکمیل ہیں ابھی تک ان دونوں علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ ہی تعمیر نہیں ہوا تو یہ صنعتی علاقے کیسے بن جائیں گے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کے اندازوں کے مطابق ان دونوں علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے کم سے کم دس سال درکار ہیں شاید یہ دونوں منصوبے پروپیگنڈے کے ذمرے میں آتے ہیں بظاہر ان کا حقیقی معاشی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ باقی منصوبوں پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کی رائے میں سی پیک کا مغربی روٹ موجودہ صورت حال میں قابل عمل نہیں ہے کیونکہ تمام علاقے میں بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے ۔ اس کی تعمیر کے لئے پچاس سال درکار ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سی پیک کے لیے گوادر بندر گاہ کا کوئی معاشی کردار نظر نہیں آتا۔ گوادر پورٹ کا تعلق مغربی ایشیاء اور وسط ایشیائی ممالک سے بنتاہے ۔ پنجاب کی ترقی کے لئے کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم موجود ہے جہاں ترقی یافتہ بنیادی ڈھانچہ بھی موجود ہے چین اس کو استعمال کرے گا گودار کو نہیں ۔