جس وقت بلوچستا ن ایک صو بے کی صورت وجود میں آیا تو پہلی قا نو نی اور جمہوری حکو مت نیشنل عوامی پارٹی نے بنا ئی۔ گور نر مر حوم غو ث بخش بز نجو تھے اور منتخب وزیر اعلیٰ عطا ء اللہ مینگل تھے اس قو می اور سیا سی حکومت کا پہلا کا م یہ تھا کہ بلوچستان کے تمام ما ہی گیروں کے جا ئز قومی معا شی مفا دات کو قا نو نی اور آئینی تحفظ دیا جا ئے۔ چنانچہ گور نر بلوچستان نے وزیر اعلیٰ کی سفا رش پر غیر قا نو نی ما ہی گیر ی کے خلاف ایک آرڈ ینس جار ی کیا بعد میں بلوچستان اسمبلی نے اس کو باقا عدہ قانون کی شکل دی اور یہ ما ہی گیر ی کے قا نو ن کی و سیع پیمانے پر تشہیر کی گئی تا کہ کم تعلیم یا فتہ ماہی گیروں کو بھی یہ معلو م ہو سکے کہ یہ قا نون کیاہے؟ اس قانو ن کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ساحل سے لیکر 3میل سمند ر کے اندر تک کی سا حلی پٹی حکو مت بلوچستان کے ما تحت ہے اور اس حدودکے اندر صر ف چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور مقا می لو گ ہی ما ہی گیر ی کر سکتے ہیں، سند ھ سے آنے والے بڑے بڑے ٹر الر وں کی اس ممنوعہ علا قے میں ما ہی گیر ی پر پا بند ی لگائی گئی اور خلا ف و رزی کر نے والوں کے خلاف سخت تر ین کاروائیاں کی گئیں جس پر سندھ کے بعض ما ہی گیرو ں نے احتجاج کیا،جس پر مر حوم بھٹو صا حب نے اس کو سیا سی اور متنازعہ مسئلہ بنا نے کی کو شش کی یوں حکو مت بلوچستان کے خلاف زبردست مہم چلا ئی گئی ۔اس کے بعد دوسرے دور میں گو ادر کے ایک مقتدر سیا ستدان حسین اشرف ما ہی گیری کے وز یر بنے تو انہوں نے پہلا کا م یہ کیا کہ اسمبلی میں ایک قا نو ن منظور کر وایا جس کی روسے بلوچستان کی سا حل پٹی میں تو سیع کی گئی اوراس کو تین میل سے بڑھا کا 12میل کر دیا گیا جس کا مقصد بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی ٹر الروں کو صو با ئی سا حلی پٹی پر یلغار سے روکنا تھا اورہے تاکہ مقامی غریب ماہی گیر یہاں سے مچھلیاں پکڑ کر اپنا روزگار کما سکیں لیکن روزاول سے نو کر شا ہی خصو صاً کرپٹ نو کر شا ہی نے اس قا نو ن کو تسلیم نہیں کیا اور اکثر سیکورٹی کے ادارے اور خصو صاً ان کے کر پٹ افسرا ن کی ملی بھگت سے قا نو ن کی خلاف ورزی کر ائی گئی اور بڑے پیمانے پر ان کے تمام قیمتی ذرائع زیست کو تباہ کیا گیا ۔اس کیلئے پہلے تو ساحل اور ما ہی گیروں کے گھروں کے قریب ٹر النگ کی گئی اور وسیع پیمانے پر ممنوعہ جال استعما ل کیاگیا بلکہ اب بھی کیا جارہاہے جس سے سمندری حیات کا مکمل طور پر صفا یا مقصود ہے۔ ان شکار گا ہوں کی بڑے پیمانے پر تبا ہی کا عمل 1980میں شر وع ہو ا اور ہر آنے والے سا ل میں اس میں زیادہ شدت لا ئی جا رہی ہے ۔اس لو ٹ ما رکی کہا نی یہ ہے کہ سند ھ اور وفا ق میں تعینات افسران نے ملی بھگت سے کوریا کے جہا زوں کو اس بہا نے اجا زت دی کہ وہ صر ف گہر ے سمند ر میں ما ہی گیری کر یں گے ۔چونکہ گہر ے سمندر میں شکار نہیں ہوتا خصو صاً تمام بڑی بڑی شکار گا ہیں یا بر یڈ نگ گراؤنڈ سا حل کے قریب ہوتے ہیں یوں ان بڑے بڑے ٹرالرز نے ساحل کے قریب تبا ہی پھیلا ئی اور بلوچستان کے ساحل کو نا قا بل تلا فی نقصا ن پہنچا یا ۔ سمندری حیات کا مکمل صفا یا کیا اورپھر یہ خو فناک ٹر الر ز حا دثا ت کا باعث بھی بنے، سا حل کے قریب چھوٹی کشتیوں کو ٹکر مارا اور ان کے جا ل تباہ کئے جس پر بلوچستان بھر میں ہنگامہ ہوا۔ نیز میر ین فشر یز کے ڈائر یکٹر جنرل رشو ت لیتے ہو ئے رنگے ہا تھوں پکڑ ے گئے تو ان کو ملازمت سے برطر ف کر دیا گیا ۔ اس شرمناک واقعے کے بعد کر پٹ وفا قی نو کر شاہی کی سبکی ہوئی اور گہر ے سمندر میں ما ہی گیر ی کا ڈرامہ ختم کر دیا گیا ۔لیکن حالیہ دنوں میں پھرایک وفا قی وزیر دولت کی لالچ میں کو ئٹہ آئے اور وزیر اعلیٰ نو اب ثنا ء اللہ زہری کو دوبارہ یہ تجو یزدی کہ گہر ے سمندر میں مچھلیاں پکڑیں گے۔ ہم نے ان کالموں میں اس کی سخت مخا لفت کی اور وزیر اعلیٰ کو یاد دلا یا کہ گہرے ے سمندر میں مچھلی اور شکار نہیں ہوتا، اس لئے وہ ضرور سا حل کا رخ کریں گے ۔اس میں دو رائے نہیں اکثر ما ہی گیری کے وزراء اور افسران کر پشن میں ملوث رہے ہیں ان میں بعض افسران جن کا کام سمندری حدود کا دفا ع کرنا ہے وہ بھی ملوث پا ئے گئے۔ کرپٹ عناصرکی اتنے بڑے پیمانے پر اتحادکیبعد یہ نا ممکن ہے کہ غیر قا نونی ما ہی گیر ی کو بلوچستان کے سا حل پر روکا جا سکے۔ بلوچستان کے سا حل اور اس کے وسا ئل کو تباہ کر نے کے درپے اس بڑے اتحاد کو پہلے تو ڑ ا بجائے، ان میں کچھ زیادہ بد نام اور کرپٹ عنا صر وکو پکڑ ا جا ئے، ان کو عبر ت کا نشان بنا یا جا ئے ،ان کو تاحیات جیلوں میں رکھا جا ئے اور بلوچستان کے ساحل کو بحری قز اقوں سیمحفوظ بنا یا جا ئے ۔