وزیر اعلیٰ نو اب ثنا ء اللہ زہری نے کو ئٹہ کے مسا ئل میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا اور کو ئٹہ کا رپوریشن کے دونوں فر یقوں کو وزیر اعلیٰ سیکر ٹریٹ میں مد عو کیا اور ان کے اختلافا ت کو ختم کر انے کی کو ششیں کیں تا کہ کو ئٹہ کے بنیاد ی مسائل ہی پر سب کی تو جہ رہے۔ گھنٹوں کے اجلاس کے بعد آخر کار یہ فیصلہ ہو ا کہ اختلافات ختم کر نے اور کو ئی متفقہ فیصلہ کر نے کیلئے ایک اعلیٰ اختیار یا تی کمیٹی بنا ئی جا ئے تاکہ وہ ان تمام مسا ئل کوحل کرے۔ یہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے ایک سنجید ہ اور ایما ندار انہ کو شش تھی جس کی تعر یف کی جا نی چا ہیے۔ مئیر کو ئٹہ کے مخا لفین کو ان سے بہت زیادہ شکا یا ت ہیں ان شکا یا ت کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں کار پور یشن کے بجٹ اجلاس میں بھی کیا بلکہ اس سے قبل بھی اپوزیشن نے کو ئٹہ کی سٹر کوں پر بھی میئر کے طر ز عمل کے خلاف احتجاج کر تے رہے اور انکی پا لسیوں کے خلاف نعر ہ با زی کی۔ بعض مخا لفین کا یہ کہنا ہے کہ صو با ئی قیاد ت نے ان پر غیر منا سب شخص مسلط کی جس کی وجہ سے یہ سارے مسا ئل پید ا ہوئے ۔ اگر ایک منا سب شخص کو ئٹہ کا مئیر ہو تا تو اتنے سارے مسا ئل اکٹھے نہ ہو تے، بنیادی طور پر اس شخص میں لیڈر شپ کا فقدان ہے، روز اول سے انہوں نے اپنے آپ کو مکمل اختیارات اور وسائل کا ذاتی ما لک سمجھا اور اکیلے ہی سا رے فیصلے کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کی مخالفت بڑھتی گئی۔ابتدا سے ہی ان کاشو ق تجارتی منصوبوں میں تھا گز شتہ مئیر کی طرح وہ بھی کوئٹہ شہر اور خصو صاً مو نسپل زمین پر ہر طر ف پلازے کھڑے کر نا چاہتے ہیں ۔موصوف نے آتے ہی کو ئٹہ شہر میں پار کنگ کی ٹھیکیداری اپنے من پسند لوگوں کود ی جس کو وزیر اعلیٰ کی مد اخلت کے بعد بند کر ادیا گیا۔ حیر انگی کی بات ہے کہ مئیر صا حب کی تو جہ شہری اور مو نسپل معا ملات پر کبھی نہیں رہی ، پور ے شہر میں ہر طر ف گڑا بلتے رہے اور ایسی خراب اور تعفن زدہ ماحول میں بھی
ان کا شو ق شہر کے چند مخصوص چو ک کو خوبصو ر ت بنا نا تھا۔ پور ے شہر میں صحت و صفا ئی کا نام نشان مو جو د نہیں تھا۔ بعض مو نسپل کو نسلرز کو یہ شکا یت تھی کہ کو ئٹہ کے کم تر قی یا فتہ یا پسماندہ علا قوں کو نظر انداز کیا گیا اور انہوں نے مئیر کے اس عمل کو متعصبانہ رویہ قر ار دیا اورپرنٹ اور الیکٹرانک میڈ یا میں اس با ت کو اجا گر کیا کہ پسماندہ ترین علا قوں میں صحت وصفا ئی نہیں ہو رہی ۔مخا لفین نے یہ بھی الز امات لگا ئے کہ ٹھیکے اور ملازمتیں من پسند افراد کو دی گئیں اور اس کے لیے انتہا ئی آمرانہ انداز اختیار کیا گیا۔ غر ض یہ کہ اپو زیشن کی تمام تر شکا یا ت جا ئز لگتی ہیں مختلف علا قوں کے لوگ بھی اسی قسم کی شکا یات کر رہے ہیں، اخبارات میں بے شمار خبر یں چھپی ہیں کہ مئیر صا حب نے بلوچ علا قوں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ان کے خلاف متعصبا نہ رویہ رکھا ۔ غیر مقا می افسران نے بھی بر ملا ان با تو ں کی نشا ندہی کی ہے کہ مئیر کا رویہ متعصبانہ ہے اور ان سے مو نسپل معا ملات نہیں چلتے ۔ان سارے معا ملات کے ذمہ دار خو د مئیر صاحب ہیں اگر وہ منا سب اور منصف ٹیم لیڈ ر روز اول سے بنتے تو کو ئی وجہ نہیں تھی کہ اس کے اپنے کونسلر ان کی مخا لت کر تے۔ انہوں نے ہر شخص کو ناراض کیا یہاں تک کہ قر یبی لو گوں کو نا راض کیا اور من ما نی کا روائیاں کر تے رہے اس لئے پور ے کا پور ا شہر اس کے خلاف ہے ۔ مئیر صاحب آئے دن فنڈز کا مطا لبہ کر تے رہتے ہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی مطا لبہ بھی کیا تھا کہ ان کو یہ بتا یا جا ئے کہ ان کا پر وٹو کو ل کیا ہے حا لا نکہ وہ کو ئٹہ کے نمبرون شہر ی ہیں اس سے زیا دہ بڑا پر وٹوکول اور کیا ہو سکتا ہے۔ آخر میں ہماری رائے یہ ہے کہ کمیٹی اپناوقت او ر وسائل ضا ئع نہ کر ے کیونکہ مئیر کے مخا لفین ان کو تسلیم نہیں کر تے اور کسی قیمت پر تسلیم نہیں کر تے لہذ ا وہ کوئی نیا مئیر تلا ش کر یں جو متنازعہ اور متعصب نہ ہو ۔مسلم لیگ اور پشتو نخو ا پارٹی کے درمیان نئے معا ہدے کے امکانا ت ہیں کہ وہ نیا مئیر لا ئیں ویسے بھی پشتونخوا کو اب سیا سی وجو ہا ت اور حکو مت کے اتحادی کی حیثیت سے کو ئٹہ کی مئیر شپ مسلم لیگ کے حوالے کر نا چا ہیے بلکہ وزیر اعلیٰ کو اختیار دیا جا ئے کہ وہ نیا مسلم لیگی مئیر کو ئٹہ کیلئے نا مز د کر یں ۔